اسلام اور مہمان

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مفہوم:کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام ک
 ابراہیم نے جو اب میں سلام کیا”۔(الذاریات: )24،25)
مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنا یہ انبیاء کی سنت ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے ساتھ کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مفہوم: “پھر وہ جلدی سے گھر میں جاکر ایک موٹا تازہ بچھڑاذبح کرکے بھنواکرلائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔”(سورۃ الذاریات: 26،27)
حضرت ابو شریحؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو تم میں سے اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے،اور جو اللہ پر اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ مہمان کہ عزت کرے،مہمان کی خاطر مدارات (کی مدّت) ایک دن ایک رات ہے،اور عام ضیافت(میزبانی) کی مدت تین دن ہے،اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ صدقہ ہے۔اور (مہمان) کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں اتنا ٹھہرے کہ اُسے پریشانی میں مبتلا کردے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے پاس جب مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود ان کی خاطر داری فرماتے۔اسی طرح جب آپ مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے ” اور کھایئے اور کھایئے”۔ جب مہمان خوب آسودہ ہوجاتا اور انکار کرتا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصرار سے باز آتے۔
مہمان نوازی کرناسنتِ مبارکہ ہے ،احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں بلکہ یہاں تک فرمایاکہ مہمان باعث ِخیروبرکت ہے ۔ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ چنانچہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا۔ فلاں یہودی سے کہو کہ مجھے آٹا قرض دے ۔ میں رجب شریف کے مہینے میں ادا کردوں گا (کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے) یہودی نے کہا، جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گے، نہ دوں گا۔ حضرت سیدنا ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا اور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، ” واللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں۔ اگروہ دے دیتا تو میں ادا کر دیتا۔”( اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ آ۔ میں لے گیا اور زرہ گروی رکھ کر لایا) (المعجم الکبیر، الحدیث ۹۸۹، ج۱، ص۳۳۱)
مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے :
 
سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے، ” جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ۔”
(کشف الخفا، حرف الضاد المعجمۃ، الحدیث ۱۶۴۱، ج۲، ص۳۳)

دس ۱۰ فرشتے سال بھر تک گھر میں رحمت لٹاتے ہیں:
 
حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھائی حضرت براء بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا، ” اے براء! آدمی جب اپنے بھائی کی، اللہ عزوجل کے لئے مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزاء اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ عزوجل کی اس کے گھر میں دس۱۰ فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ عزوجل کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہيں۔اورجب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ عزوجل کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذائیں ”جَنَّۃُ الْخُلْدِ” اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے ۔ ”
(کنزالعمال، کتاب الضیافۃ، قسم الافعال،الحدیث۲۵۹۷۲، ج۹، ص۱۱۹)

سبحان اللہ، سبحان اللہ! کسی کے گھر مہمان تو کیا آتا ہے گویا اللہ عزوجل کی رحمت کی چھما چھم برسات شروع ہو جاتی ہے اس قدر اجر و ثواب اللہ! اللہ!
مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنا سنت ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ، تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔ ” (سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ ، باب الضیافۃ، الحدیث۳۳۵۸، ج۴، ص۵۲)
اے ہمارے پیارے اللہ ! عزوجل ہمیں مہمانوں کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اوربار بار ہمیں مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرما۔
(اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم )
 
٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس گھر میں کھانا کھلانے کا اہتمام ہو۔بھلائی (خیر وخوبی ) اس گھر کی طرف(اونٹ کی) کوھان میں چلنے والی چھری سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ چل کر آتی ہے ۔(ابن ماجہ)

٭ایک شخص بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوا۔ اور آپ سے پوچھا ،یا رسول اللہ آپ اس بارے میں کیا ارشادفرماتے ہیں کہ جب میں کسی (آشنا) آدمی کے پاس سے گزروں (تو وہ باوجود واقفیت کے) نہ تو میری مہمانی کرے اور نہ ہی ضیافت ۔پھر کچھ دنوں کے بعد وہی شخص میرے پاس سے گزر ے، اب میںکیا طرزِ عمل اختیار کروں، اس کی مہمان نوازی کروں یا میں بھی بدلے میں بے اعتنائی اختیا ر کروں ۔آپ نے ارشادفرمایا (نہیں نہیں )تم اس کی مہمان نوازی کرو۔(ترمذی )

٭حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل محتشم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں۔ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ پر اور یوم آخر ت پر ایمان (واعتقاد ) رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے ۔ ایک دن اور ایک رات تو اس کی خوب خاطرمدارات کر ے ، اورویسے ضیافت تین دن تک کرے ۔ اس کے بعد اگر مہمان تین دن سے زیادہ ٹھہرے تو جو کچھ اس کی مہمان داری پر خرچ ہوگاوہ صدقہ ہے۔ اور مہمان کو(بھی ) اس قدر (دیر) تک ٹھہرنا جائز نہیں کہ میزبان کے گھر والے اس سے تنگ آجائیں ۔(بخاری)

٭حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔اپنے مہمان (کو الوداع) کرنے کے لیے اس کے ساتھ دروازے تک چل کر جانا چاہے ۔(مشکوٰۃ)

٭حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشادفرمایا : جس کو مہمان بننے کی دعوت دی جائے مگر وہ (بلاعذر شرعی ) اسے قبول نہ کرے تو اس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی۔اور جو بغیر کسی دعوت کے ہی (کسی تقریب میں )داخل ہوگیا، وہ چور بن کر وہاں گیا اور نقب لگانے والا بن کر واپس آیا۔(ابو دائود)