Table of Contents

کہا جاتا ہے کہ انسان اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور تنہا ہی جاتا ہے ۔ کتنی بھی مجلسی زندگی گزار لے در اصل وہ تنہا ہی ہوتا ہے ۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہون کہ در اصل تنہائی کے لمحات ہی حق اور سچ ہوتے ہیں ۔ انسان اس وقت ” ریئل ” ہوتا ہے جب وہ اکیلا ہو ۔ لفظ اللہ بھی میری سمجھ میں اس وقت انے لگتا ہے جب میں تنہا ہوں ۔ کافی ہاؤس کے بحث میں اس لفظ کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ مذہب ذہین لوگوں کی زندگی کا مضمون نہیں ہے ۔ 

اشفاق احمد

بہت سے لوگوں کے پاس دین کا اور نفسیات کا بڑا علم ہوتا ہے ۔ لیکن ان کی زندگیاں بڑی خالی ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف باہرکا علم انسان کے اندر کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ہر شخص جانتا ہے کہ ظلم سے ظلم پیدا ہوتاہے پھر بھی ہر شخص دوسرے پر ظلم کرتا ہے ۔

اشفاق احمد

اس دنیا میں ہر شخص سکون کا متلاشی ہے۔ سکون یعنیpeace of mind کا مطلب یہ ہےکہ انسان کے دل و دماغ مکمل طور پر مطمئن ہوں۔ انسان ہر دور میں ذہنی سکون ڈھونڈنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ مادیت پرستی کے موجودہ دور میں تو یہ مسئلہ اور بھی زیادہ شدید ہوگیا ہے اور دنیا میں موجود انسانوں کی اکثریت اس وقت کسی نہ کسی شکل میں ذہنی پریشانی یا ڈپریشن  کا شکار ہے۔ بعض اوقات اس ڈپریشن کی وجوہات معلوم ہوتی ہیں مگر ذہنی ڈپریشن (Anxiety) کی وہ صورت جس میں کسی شخص کو اپنی ذہنی پریشانی کی وجہ معلوم نہ ہو، وہ اس ڈپریشن کی خطرناک ترین شکل ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں بعض ممالک ایسے ہیں جہاں فی کس آمدن (Per Capital Income)  دنیا میں سب سے زیادہ ہےمگر حیرت انگیز طور پر انہی ممالک میں سالانہ خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہے مگر ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کی اس ذہنی پریشانی کی وجہ آخر ہے کیا۔

لوگ ذہنی سکون ڈھونڈنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بعض لوگ دولت و ثروت کو زیادہ سے زیادہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ دولت میں سکون حاصل کریں۔ بعض لوگ سیر و تفریح (Entertainment) میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ نہ جانے کن کن ملکوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں مگر سکون پھر بھی نہیں آتا جبکہ بہت سارے بدنصیب تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو موسیقی، شراب، جوا ، نیند آور گولیوں  اور حتی کہ غلط کاریوں میں بھی سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید وقتی طور پر یہ لوگ وجد (Ecstasy) میں آکر کچھ عارضی سکون بھی حاصل کرلیتے ہوں مگر جب اس عارضی تفریح کا اثر ختم ہوتا ہے تو یہ پہلے سے زیادہ غمگین (Depressed) ہوجاتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میرا دین سے کوئی اتنا لگاؤ  نہ تھا تو میں ہر وقت اس سوال کے جواب میں رہتا تھا مگر پتا نہیں کیا بے چینی تھی جوحل ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی اور نا ہی دین کے بارے میں اتنا فہم تھا کہ اس سوال کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں ڈھونڈسکوں۔ انہی دنوں میں ایک دن مدرسے میں چلا گیا تو وہاں دیوار پر یہ آیت لکھی ہوئی تھی: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ. سن لو اللہ ہی کے ذکر میں دلوں کا اطمینان ہے  ۔

وہ دن اور وہ لمحہ مجھے اب بھی یاد ہے۔ مجھے تو ایسا لگا کہ وہ سوال جس کی تلاش میں میں بھٹک رہا تھا اس کا جواب تو اللہ رب العزت نے قرآن میں  ہی دیا ہے۔ گو کہ اس کے بعد دین کی راہ پر چلنے کی وجہ سےمجھے کچھ مشکلات کا بھی سامنا کرناپڑا لیکن چونکہ میں اندرسے مطمئن تھا اس لئے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی جبکہ اس کے برعکس جس وقت انسان اپنے رب سے دور ہو تو ظاہری طور پر کتنے ہی ٹھاٹھ میں کیوں نہ ہومگر اندر سے ایسا شخص بے چین و بے قرار ہی رہتا ہے۔

ہم میں سے بہت سارے ایسے ہوں گے جنہوں نےقرآن کی اس آیت کو پہلے بھی کئی بار پڑھا ہوگا مگرہم میں سے کتنے ایسے ہیں جن کواس بات کا کامل یقین ہے کہ اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کے دل کا سکون و اطمینان فقط اپنے ذکر میں رکھا ہے ۔ کاش کہ تمام انسانیت جو سکون کی تلاش میں ادھر ادھر ماری ماری پھرتی ہے اس بات کو جان لے کہ دلوں کا سکون و اطمینان تو فقط اللہ کے ذکر میں ہی ہے۔  امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول ہے: ہر انسان کے دل میں ایک سوراخ ہوتا ہے جس کو اللہ کے ذکر کے علاوہ کوئی بھی چیز پر نہیں کرسکتی۔

ہاں یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے ذکر سے مراد ہے کیا؟ کیا ذکر یہی ہے کہ انسان بس منہ سے اللہ کی تسبیح کہتا رہے مگر اس کا دل اللہ کی یاد سے خالی ہو۔ نہیں بلکہ یہ نماز، روزہ، دعا، مناجات، صبح و شام کے اذکار، تلاوت قرآن وغیرہ تو اللہ کے ذکر کے مختلف طریقے ہیں جو اللہ نے سکھلائے ہیں مگر ان سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ انسان کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ میرا رب ہر وقت میرے ساتھ ہے اور زندگی کے حالات جیسے بھی ہوں وہ اللہ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔ میرا رب کبھی اپنے بندے کو بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔ وہی اللہ میرا کارساز حقیقی ہے۔ اور اس کی زندگی اس آیت مبارکہ کی عملی تصویر ہو۔

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.’’بے شک میری نمازاور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العزت کے لئے ہے۔ ‘‘

بس جب انسان اس حال میں زندگی گزارے کہ اس کے دل میں ہر وقت اللہ کی یاد ہواور اس کی نماز، قربانی، جینا، مرنا، اس کی تمام محنتیں اور کاوشیں اور زندگی کی تمام ترجیحات (Priorities) اور مقاصد(Goals) صرف اور صرف اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر ہوں تو پھر دیکھیے گا کہ زندگی کے حالات جیسے بھی ہوں اس کی زندگی کتنے سکون میں گزرتی ہے۔

(ابوہریرہ)

فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت وبہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں اسی لیے نفسِ انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفسِ انسانی کی فطرت میں شامل ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ.

’’بے شک نفس تو برائیوں کا ہی حکم دیتا ہے۔‘‘

 يوسف، 12 : 53

لیکن دوسری طرف اﷲتعالیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی ودیعت کر دیا ہے جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز، حق پرستی، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَاO

’’پس (اﷲتعالیٰ) نے نفس انسانی کے اندر برائی او ر اچھائی دونوں کا شعور ودیعت کردیا ہے۔‘‘

 الشمس، 91 : 8

اور ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا :

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِO

’’اور ہم نے (انسان کو نیکی اوربدی کے) دونوں راستے دکھا دیئے ہیں‘‘

 البلد، 90 : 10

گویا انسان کے اندر برائی اور اچھائی، بدی و نیکی، خیرو شر دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کر دیئے گئے۔

ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکراؤ کی کيفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے۔ اسی بگاڑ سے بے راہ روی، ظلم و استحصال، فسق و فجور جنم لیتے ہیں انسانی شخصیت اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس کی ضرورت کیونکر پیش آتی ہے اس کی کشمکش سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے تزکیہ نفس۔

جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىO

’’اور نفس کو ہر بری خواہش سے روکتا ہے۔‘‘

 النازعات، 79 : 40

اس آیہ کریمہ سے پتا چلا کہ روح میں موجود خیرکے تقاضوں کو نفس کے برے اور شر کے تقاضوں پر غالب کرلینے سے یہ تصادم ختم ہوجاتا ہے۔ نیکی بدی پر غالب آجاتی ہے اور جب حیوانی، شہوانی، نفسانی قوتیں کمزور ہونے لگیں تو نتیجتاً روح اور اس میں پوشیدہ نیکی کی قوتیں نشونما پا کر طاقتور، اور مضبوط ہوجاتی ہیں اور انسانی کی ساری قوتیں نیکی کے فروغ پر صرف ہونے لگتی ہیں۔

پس جب کوئی برائی نفس انسانی میں فروغ نہ پاسکے، کوئی شے صراط مستقیم سے اس کو بہکانہ سکے اور مادی زندگی کی آلائشیں اس کو اس راہ حق سے ہٹا نہ سکیں تو ایک طرف اسے بارگاہ خداوندی میں ایسا سجدہ عبادت نصیب ہو جاتا ہے جس کی کيفیت فان لم تکن تراہ فانہ یراک کی مصداق ہے۔ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا بصورت دیگر خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔

اور دوسری طرف اس کی شخصیت روحانی و اخلاقی کمال کی بلندیوں کو بھی پالے تو اس عمل کا نام تزکیہ نفس ہے جس کے حصول کے بغیر عبادت بے معنی و بے لذت ہے نیکیکے فروغ و تقویٰ اور معرفت ربانی کے لیے پہلا زینہ اور سب سے پہلا عمل تزکیہ نفس ہے۔

اگرکوئی فرد خواہ وہ کسی بھی ملک کا رہنے والا اور کوئی بھی بولی بولنے والا ہو، زندگی کا حقیقی سکون اور سچی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ سوائے اللہ کے دامن کے اور کہیں دستیاب نہیں ہے۔ آج کے مضطرب معاشرے میں خوشی اور سکون کے حصول کا سب سے آسان اور سب سے مختصر راستہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف لوٹا جائے اور اس تک پہنچنے کا طریقہ بس ایک ہے کہ اس نے جن کاموں کو کرنے سے منع کیا، رک جائے اور جن کاموں کو کرنے کو کہا، انھیں اختیار کیا جائے۔ اور اس میں رضائے الہٰی اور سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم کو ہر دم پیش نظر رکھا جائے۔ جس دن سے ایسا معمول بنا لیا جائے گا اسی دن بلکہ اسی لمحے دنیا کی تمام خوشیاں اور کائنات بھر کا سکون میسر آجائے گا۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ!