گیان ، علم، نالج، معلومات۔ یہ الفاظ ایک ہی مطلب رکھتے ہیں۔ مگر ان کو مختلف ذبانوں میں بولا جاتا ہے۔ گیان ہندی کا لفظ ہے۔ علم عربی لغت میں استعمال ہونے والا حروف ہے۔ انگریزی میں نالج اور اردہ میں معلومات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر ہم میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو یہ دعوٰہ کر سکے کہ وہ مکمل عبور رکھتا ہے معلومات پر۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ فلاں شخص بڑا گیانی ہے۔ اسکی بڑی نالج یا معلومات ہے۔ مگر عربی کا حرف علم لا محدود معنی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔علم کی صحیح پہچان ہمیں صرف دین اسلام دیتا ہے۔ جس سے ہم دین ، دنیا اور زمیں آسمان کے بارے میں جان پاتے ہیں۔ نا قرآن پاک میں زمین کے گول ہونے کا ذکر ہوتا ، نا انسان کے علاوہ جن ، روح کا ذکر ہوتا ۔ تو تعلیم کی بنیاد تحقیق پر کبھی نا رکھی جاتی۔نا اس تعلیم اتنی وسیع ہوتی کہ ماں کے بطن میں موجود جنس معلوم کرنے کی جستجو ہوتی۔ نا چاند تاروں کا تعین ہو پاتا۔ انسان پتھروں کی پرستش میں مگن رہتا۔ روز اپنے ہاتھ سے بھکوان بناتا۔ روز سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کرتا اپنے دل کو اپنے بنانے والے کا شکر ادا کرنے کے لیئے۔ جبکہ دین اسلام میں تو بس اپنے رب کو پکارو، یاد کرو رب موجود۔

گزشتہ تمام گفتگو بھی صرف تمحید کے ذمرے میں آتی ہے۔کیوں کہ گیان، علم، نالج یا معلومات کو بیان کرنے کے لیئے صرف ایک انسان کا علم نا کافی ہے۔ جس کی جتنی سوچ کام کرتی ہے۔ وہ اتنا علم رکھتا ہے۔ غریب ، امیر ، رنگ وروپ، عربی عجمی کا فرق مٹا دیتا ہے گیان۔ انسان اور دنیا کا تعلق بھی محدود کر دیتا ہے گیان۔ زندہ رہنے کی خواہش بھی ماند پڑ جاتی ہے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے مقابلے میں۔ کیوں کہ رب کی رضا تو ہے ہی علم۔جیت کیا ہے۔ ہار کیا۔ زندگی کتنی ہے۔ اور پیسہ کیسا۔ کسی کا برا سوچنا کیا دیگا ۔ اور کوئی ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ یہ سب باتیں پھیکی پڑ جاری ہیں جب انسان اہل علم ہو جائے۔

تو چل میں آیا کی تیاری ہے علم ۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں آنا جانا، کھونا پانا، حاصل وصول، نفس اور شیطان صرف انسان کو علم سکھانے کے لیئے ہیں۔ ورنہ انسان آدم کی ایک غلطی کا خمیازہ نا بھگتتا اس دنیا میں آ کر۔ انسان کا پیدا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارہ رب ہمیں دین اور دنیا کا فرق سمجھانا چاہتا ہے۔ بظاہر سب کھو دینے کا نام دین۔ اور سب پا لینے کا نام دنیا ہے۔ مگر علم ، گیان ، تعلیم، نالج ہمیں اس بات کو غلط ثابت کرنے کی عقل دیتا ہے۔ کہ دنیا میں سب کھو کر آخرت میں پانے کی سمجھ رکھنا گیان ہے۔ مگر چونکہ ہر حضرت انسان خود کو دنیا کا تیس مار خان سمجھتا ہے۔ اسی لیئے محدود علم کا مالک ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی در حقیقت تیس مار خان نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کے علم ، تعلق رویئوں کے محتاج ہیں۔ اگر یہ علم رکھتے ۔ کہ بلآخر رب کے پاس لوٹ جانا ہے تو ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ زندگی میں کمی بیشی کی حوس کا شکار نا ہوتے۔ الغرض دنیا فانی ہے ۔ اور ہم کس لیئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں یہ جان کر اس پر عمل کرنے کا نام گیان ہے۔ علم ہے۔ نالج ہے۔ معلومات ہے۔