ننگی مخلوق کیا ہوتی ہے۔ یا انسان ننگا کب ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے پیرہن اتار دیتا ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ تب ہوتا ہے۔ جب انسان تب ننگی مخلوق کہلائے۔ جب اپنے ضمیر سے غیرت اتار دے۔ اور یہ بے غیرتی صرف زنا کرنے کی، یا نفسانی حوس کی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ 

اور یہ صورت ہوتی ہے۔ ایک بیٹے کی بے غیرتی۔ ایک بیٹے کی بے حسی۔ جب وہ یہ بھول جاتا ہے۔ کہ جس کوکھ سے اسنے اس دنیا میں قدم رکھا ۔ اسی کوکھ کے پیروں تلے جنت ہے

ایسے بیٹے ننگی مخلوق کے ذمرے میں آتے ہیں۔ جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے والدین کی بے عزتی اپنی ہی بیوی کے ہاتھوں ہوتی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور ان کم ظرفوں میں یہ حوصلہ نہیں ہوتا کہ اپنی بیوی کو بس اتنا للکار دیں کہ آئیندہ میں یہ توہین برداشت نہیں کرونگا۔ یا کم از کم میرے والدین کی خدمت کرنا تمہارا فرض نہیں ہے۔ تو انکو زلیل کرنے کا حق بھی تم نہیں رکھتی ہو۔ یہ ننگی مخلوق اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے والدین کی توہین کرواتے ہیں ۔ اور پھر بعد میں بلی کی طرح دبک کر کمرے کی تنہائی میں بیوی سے اپنی تزلیل کرواتے ہیں۔ کیونکہ انکی بیویاں در حقیقت نا شکری ہوتی ہیں ۔ تو وہ اپنے شوہر کی دی گئی نعمتوں کی شکر گزار بھی نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ اپنے شوہر پر دباؤ ہی ڈالتی رہتی ہیں۔ 

یہ ٹھیک ہے کہ دین اسلام میں بہو کا فرض نہیں کہ وہ اپنے ساس سسر کی خدمت کرے۔ بلکہ وہ جو کر بھی رہی ہے۔ وہ اسکا احسان ہے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ ایسی بیوی اپنے شوہر کی مکمل مالک بن گئی۔ ایک ماں سے وہ اسکا بیٹا چھیننے کا حق نہیں رکھتی۔ ایک باپ کی خدمت کا فرض وہ اسکے بیٹے سے نہیں چھین سکتی۔ لڑکے کے والدین کے ساتھ خود رہے نا رہے۔ مگر بیٹے کی اپنے والدین سے ملاقات یا ملنا جلنا روکنے کا بھی حق نہیں رکھتی۔ اور اگر کوئی بیوی ایسا کر رہی ہے۔ تو اپنے لیئے گناہ اکھٹا کر رہی ہے۔ اور ایسی بیوی تو بیوی۔ ایسا بیٹا کسی بھی رحم کا حقدار نہیں۔ جو بیوی کے خوف سے والدین کو ٹھکرا دے۔ جو اپنی بیوی کو اتنا حق دے دے۔ کہ اسکی بیوی اندھا دھند اپنے ساس سسر کے ساتھ نا صرف زیادتی کرے۔ بلکہ تزلیل کی تمام حدیں پار کر کے۔ ساس سسر کو گھر سے نکال دے۔ لعنت ہے ایسے بیٹے پر۔ کہ جو اپنے والدین کی قربانی بھول گیا۔ اور والدین کے حوالے سے یہ بھول گیا کہ اولاد اپنے والدین کی خدمت کر کے ان پر احسان نہیں کرتی۔ بلکہ اپنا فرض پورا کرتی ہے۔ اور آج کا بیٹا حواس باختہ ہے۔ بے ہوش ہے۔ نا دان ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنی بیوی کا غلام ہے۔ اور والدین کو ٹھکرا رہا ہے۔ 

نا تو والدین کے کہنے پر اپنی بیوی پر ظلم کرے۔ نا ہونے دے۔ اور نا ہی بیوی کے کہنے پر اپنے والدین پر زیادتی کرے یا کرنے دے۔ کیونکہ دونوں تعلقات لے کر آگے چلنا بھی ہے۔ اور کل کو اپنی اولاد کو اچھا کر کے دکھانا بھی ہے۔ ورنہ ۔۔جیسا کرو گے۔ ویسا بھرو گے۔ ننگی مخلوق بننے کی بجائے عزت کی چادر اوڑھو۔