کھانے پینے کے بنیادی اصول

Table of Contents

“اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر الله ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو”-

 سوره البقرہ

 

“اور جو حلال طیّب روزی الله نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور الله سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو”-

 سورہ المائدہ

 

“تو جس چیز پر (ذبح کے وقت) الله کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا کرو”-

 سورہ الانعام

 

“اور جس چیز پر الله کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں

 کہ تم سے جھگڑا کریں اور

 اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بےشک تم بھی مشرک ہوئے”-

 سورہ الانعام

رسول الله صلی علیہ وسلّم کی احادیث کے مطابق،

“جب بھوک لگے تب کھانا کھاؤ”

“پانی تین سانس میں پیو”

 

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ دن میں آٹھہ، نو، دس، گیارہ گلاس پانی پیو- لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ آٹھ، نو، دس، گیارہ گلاس پانی کتنے سائز کے گلاسز میں پینا ہے-   پانی  مختلف مقدار میں پیا جاتا ہے لہٰذا ہر کوئی تین سانس میں پانی کیسے پی سکتا ہے-

اس کا سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انسان کی صحت کے لئے ایک وقت میں اتنا پانی کافی ہوتا ہے جسے وہ تین سانس میں پی سکے-  اسی مقدار کو ہر انسان، چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا، اپنی جسامت اور پیاس کے مطابق دن میں کئی بار پی سکتا ہے-  اس سے سانس بھی نہیں رکتا پانی پیتے ہوۓ اور پھندا بھی نہیں لگتا-  اس بات کا یقین رکھیں کہ رسول الله صلی علیہ وسلّم کی باتوں میں ساری انسانیت کے لئے فائدہ ہے-  اور انہوں نے کوئی بات بلاوجہ نہیں کہی-

 

اکثرکھانے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وقت پر کھاؤ-  اور اسکے لئے تین، چار یا پانچ میل meals تجویز کے جاتے ہیں-  کبھی کہتے ہیں تین سبزیاں اور دو پھل اور تھوڑا گوشت کھاؤ-  کبھی یہ کھاؤ وہ نہ کھاؤ-  ان تمام تحقیقات کے نتیجے میں انسان صرف پریشان ہو سکتا ہے کہ کیا کھاۓ اور کیا نہ کھاۓ-  کچھ لوگ صبح ثقیل ناشتے کے عادی ہوتے ہیں اور پھر دوپہر اور شام میں بھی مرغن کھانے کھاتے ہیں-  کچھ لوگ ہلکے ناشتے کے عادی ہوتے ہیں اور انھیں وقفے وقفے سے بھوک لگتی رہتی ہے-  کچھ لوگ ہمیشہ من پسند کھانے کھانا چاہتے ہیں، بہت سوں کو چٹ پٹے کھانوں کی اور بہت سوں کو صرف گوشت کھانے کی عادت ہوتی ہے-  غرض کہ ہر شخص اگر ان تحقیقات پر عمل کرے تو پاگل ہوجاۓ کہ شاید وہ صحیح متوازن غذا نہیں کھا رہا لہٰذا بیمار ہے-

 

لیکن رسول الله نے ایک قابل عمل اصول بتا دیا کہ کھانے کا اصل وقت وہ  ہے جب انسان کو بھوک لگی ہو-  اور ایک کہاوت کے مطابق “مزہ کھانے میں نہیں بھوک میں ہوتا ہے”-  بھوکے کو چٹنی بھی قورمہ بریانی لگتی ہے-  اور جنکے پیٹ بھرے ہیں انکو ہر کھانے میں نقص نظر آتا ہے-   بچوں اور بڑوں کی بھوک کے اوقات اور تقاضے فرق ہوتے ہیں-  بچوں کو کھیل کود اور بے انتہا اور بلاوجہ کی تعلیم کی وجہ سے بھوک زیادہ لگتی ہے اور انھیں بھوک کے وقت کھانا نہ ملے تو انکی بھوک مرجاتی ہے اور وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں-  بڑوں کی بھوک انکی محنت اور مشاغل کے حساب سے ہوتی ہے-  لوگ سائنسی تحقیقات اور ڈاکٹرز کے مشورے پر ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے ہیں اور کبھی کچھ کھانا شروع کردیتے کبھی کچھ-  کھاتے بھی ہیں تو یہ سوچ کر کہ  پتہ نہیں کیا اثر کرے گا-   لہٰذا رسول الله کی بات زیادہ قابل عمل نظر آتی ہے-

 

اکثر صحت و تندرستی اور ایک چمکدار شخصیت کے لئے مختلف غذائیں تجویز کی جاتی ہیں-  مختلف طریقے بتاۓ جاتے ہیں- حالانکہ اسکے لئے صرف اوپر والی احادیث کے مطابق عمل کرنا اور خوش اور شکر گذار رہنا شرط ہے-  ڈاکٹرز کے مطابق متوازن غذا میں روزانہ سبزیاں، پھل، گوشت، چکنائی، دودھ وغیرہ ہونا چاہیے-  جو کہ آج کل کے دور میں ایک مشکل کام ہے-  عام لوگوں کی تنخواہ دس، پندرہ بیس سے پچیس ہزار تک یا پھر تیس چالیس ہزار تک  ہوتی ہے-  لوگوں کے بجٹ میں زیادہ حصّہ بچوں کے اسکولوں کالجوں کے خرچے کا ہوتا ہے-  اسکے بعد اگر وہ کراۓ کے گھر میں رہتے ہیں تو کرایہ آجکل پندرہ ہزار سے کم تو کہیں نہیں ہے وہ بھی گندے اورعجیب قسم کے علاقوں میں-  ورنہ تو اس سے زیادہ ہی ہوتا ہے-  پھر آۓ دن لوگوں کے شادی بیاہ، سالگرہ، روزہ کشائی، سوئم، چہلم، برسی، میلاد، مجلسوں وغیرہ کے خرچے-  مجھے لگتا ہے لوگ اپنے گھر کے بجاۓ دوسروں کے گھر زیادہ کھا رہے ہوتے ہیں-  اور وہ بھی ایک ہی طرح کے کھانے یعنی بریانی، چکن تکّہ یا روسٹ، قورمہ، نان، شرمال، حلیم، وغیرہ-  اور پھر آلودگی اور گندگی کی وجہ سے جو بیماریاں ہوتی ہیں ان کے علاج پر خرچہ-

 

 

اچھی صحت کے لئے نیند اور پرسکون ماحول بھی بہت ضروری ہے  اور وہ کس کو نصیب ہے-  دس سال تک کے بچوں کے لئے نو گھنٹے اور پچاس سال سے اوپر حضرات کے لئے کم از کم سات  آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے-  اسکے ساتھہ ایک ماحول جس میں صفائی ستھرائی ہو-  چیخ و پکار نہ ہو-  شور شرابا نہ ہو-  کیا ہمارے گھروں میں ایسا ماحول ہوتا ہے-  ملازمت کے دوران جتنا شدید ذہنی دباؤ کا ماحول ہوتا ہے کہ نہ پانی، نہ صفائی، نہ کھانے کی جگہ, نہ بیٹھنے کی جگہ، زیادہ سے زیادہ کام کا بوجھ-  پھر مستقبل کی فکر، حالات کا خوف-  صحت اچھی ہو تو کیسے-

پرسکون زندگی کے اصول یہ ہیں-

١) بھوک لگے تب کھائیں-

٢) کھانا حلال ہو تاکہ دل مطمئن رہے کہ الله کی نافرمانی نہیں ہو رہی-  کیونکہ دل کو سب سے زیادہ اطمینان اسی بات سے پہنچتا ہے کہ الله کی نافرمانی نہیں ہو رہی-  اور غلطی سے حرام کھالیں تو الله سے براہ راست معافی مانگ لیں-  ادھر ادھر فتوے تلاش کر کے علماء کو آزمائش میں ڈالنے کی ضرورت نہیں-

٣) کھانے میں شک ہو کہ آیا یہ حرام ہے یا گندگی سے پکا ہے تو پھر چھوڑدیں-  کیونکہ رسول الله صلی علیہ وسلّم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
“جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو”-  کیونکہ اسلام کا مقصد ہی دل کو اطمینان بخشنا ہے-  اور دوسری بات یہ کہ جب سب لوگ مشکوک چیزیں چھوڑ دیں گے تو مشکوک چیزوں کا کاروبار خود بخود ٹھپ ہو جاۓ گا-  اور اسکے لئے کسی حکومت اور قانون کو گالیاں دینے کی ضرورت  بھی نہیں پڑے گی-  خود بخود اصلاح کا راستہ کھولتی ہے یہ حدیث-

٤) کھانے پینے میں جس حد تک ممکن ہو سنّت کے طریقے اپنائیں-  اور اس کے لئے معلومات ہر جگہ سے مل سکتی ہیں اور ان پر کسی فرقے میں اختلاف نہیں ہے-

٥) متوازن غذا کے ساتھہ ساتھ ذہنی اور جسمانی آرام بھی ضروری ہے-  لہٰذا نیند کا خیال رکھیں اور ساتھ ہی اپنے کام سے کام-  دوسروں کی زندگی میں غیر ضروری مداخلت یا غلط طریقے سے کی گئی مداخلت بھی ذہنی پریشانی کا سبب بنتی ہے-  کیونکہ انسانی لاشعوری طور پر بے چین ہو جاتا ہے-  سورہ مزمّل کی آخری آیات پڑھیں تو اس میں یہی ذکر ہے کہ اتنا قرآن پڑھو جتنا آسانی سے پڑھا جاسکے-  کیونکہ بیزاری سے عبادت کروانا اسلام کا مقصود نہیں-  اسی طرح ایک حدیث کے مطابق، اگر بھوک لگی ہو تو پہلے کھانا کھا لو اور پھر آرام سے نماز پڑھو-  مقصد وہی، کہ عبادت کے ذریعے سکون حاصل ہو نہ کہ بوجھ لگے- اور اس طریقے پر دل کو مطمئن کرلیں کہ یہ الله اور اسکے رسول کی تجاویز ہیں-

“تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات قیام کیا کرتے ہو۔ اور الله تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی۔ پس جتنا آسانی سے ہوسکے (اتنا) قرآن پڑھ لیا کرو۔ اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعض  الله کے فضل (یعنی معاش) کی تلاش میں ملک میں سفر کرتے ہیں اور بعض  الله کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو جتنا آسانی سے ہوسکے اتنا پڑھ لیا کرو۔ اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰة ادا کرتے رہو اور  الله  کو نیک (اور خلوص نیت سے) قرض دیتے رہو۔ اور جو عمل نیک تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اس کو الله  کے ہاں بہتر اور صلے میں بزرگ تر پاؤ گے۔

 اور الله سے بخشش مانگتے رہو۔ بےشک الله بخشنے والا مہربان ہے”-

 

 سورہ مزمّل

٦) ایک ہفتے میں انسان کم از کم اکّیس میلز کھاتا ہے-  یعنی سات دن تک صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا-  کچھ دن میں پانچ وقت کھاتے ہیں، کچھ چار وقت اور کچھ صرف دو وقت-  بابا کی طرح-  جو صبح کے ناشتے کے بعد مغرب کے وقت کھانا کھاتے ہیں-

خیر ان اکیس کھانوں کو متوازن غذا کے لحاظ سے ترتیب دینا اتنا مشکل نہیں-  بس یہ ضرور یاد رکھیں کہ کھانے میں طاقت اور غذائیت الله کے حکم سے آتی ہے-  ایک کھانا کسی کو صحت دیتا اور دوسرے کے پیٹ میں درد کر سکتا ہے-  اور ہر چیز روزانہ کھانا بھی لازمی نہیں- ہمارے رسول، اہل بیت اور صحابہ کرام صرف کجھوروں پر بھی گزارا کر لیتے تھے-

اکثر لوگ بہت کچھ کھا رہے ہوتے ہیں لیکن صحت بخشنے والی چیزوں کو کہ دیتے ہیں کہ یہ مہنگی ہیں-  زیتون کا تیل olive oil چار سو پانچ سو کا آتا ہے اور ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ کسی سلاد پر ڈال کر کھائیں تو تین چار مہینے چل جاتا ہے-  اسی طرح جو بھی ڈریسنگ dressings اور ساسز sauces لیں وہ تین چار سو سے زیادہ کی نہیں ہوتی- پھل روزانہ کھانے ضروری نہیں-  ہفتے میں ایک یا دو دن موسمی پھل کھا لیں کافی ہیں-  البتّہ ایک حدیث کے مطابق پھلوں کے چھلکے دروازے کے باہر نہ ڈالیں کہ آپکے پڑوسی کے بچے حسرت کریں کہ انکو کیوں یہ پھل میسّر نہیں-  ہوسکے تو انکو احسان کے طور پر نہیں بلکہ تحفے کے طور پر تھوڑا حصّہ بھیج دیں-  رسول الله کی باتیں لوگوں کو اذیّت سے بچانے  اور امن قائم کرنے کے لئے ہیں-

اگر پیسے بھارتی فلموں کے بجاۓ متوازن غذا پر خرچ کریں تو دل کو سکون بھی ملے گا اور جسم کو صحت-

کھانے کی فہرست ان کو دیکھ کر ترتیب نہ دیں جو ایک وقت میں پانچ پانچ ہزار کا کھانا کھا کر سمجھتے ہیں کہ وہ ماڈرن ہو گۓ ہیں یا انکی عزت بڑھ گئی ہیں معاشرے میں-  اپنی زندگی کی نعمتوں کا خود لطف اٹھائیں-  اگر غیر ضروری اخراجات کم کر لیں اور لوگوں کی پسند نا پسند کے مطابق زندگی گزارنا چھوڑ دیں تو زندگی بہت آسان، خوشگوار اور مزیدار ہو سکتی ہے-

٧) متوازن غذا افورڈ کرنے کے لئے اپنےغیر ضروری خرچے کم کریں-  بچوں کو سرکاری اسکولوں میں ڈالیں اور حکومت پرزور ڈالیں کہ انکی حالت ٹھیک کرے-  اسطرح فیس اور ٹیوشن کا پیسہ بچے گا-  صرف ضروری تقریبات میں جائیں-  ہر تقریب میں نۓ کپڑے جوتے ضروری نہیں-

٨)  جو کچھ بھی کھائیں اسکے بعد الله کا شکر ضرور ادا کریں کیونکہ الله نے فرمایا ہے کہ

“اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا”

 

 ٩) ممکن ہو تو اپنے کھانے میں دوسرے کو شریک کر لیں یا اس کے لئے کوئی ایسا طریقہ اپنائیں کہ دوسرے کو مفت خوری کی عادت بھی نہ پڑے اور اسکی عزت بھی رہ جاۓ اور طلب بھی پوری ہوجاۓ-  اور اسکو یہ احساس دلا دیں کہ یہ اسکے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے مدد کی جارہی ہے لہٰذا وہ اس پر تکیہ کر کے نہ بیٹھ جاۓ-

١٠) سونے سے پہلے اپنے گناہوں اور دوسروں کے لئے بھی معافی اور رحمت کی دعا کریں الله سے-  اس سے بھی دل اطمینان پاتا ہے-  ١٩٩٩ میں چھوٹے ماما نے ایک خط لکھا تھا مجھے، حسب عادت مختصر ترین-  اس میں سلام، دعا اور خیریت کے بعد ایک واقعہ لکھا تھا جو آج تک مجھے یاد ہے اور الله اسکی جزا ماما کو اربوں کے حساب سے ملے-  واقعہ یہ ہے-

ایک صحابی تھے جنھیں دیکھ کر رسول الله اپنے ساتھ بیٹھے صحابیوں سے فرماتے کہ وہ دیکھو جنّتی جارہا ہے-  ایک صحابی کو کچھ تجسس ہوا کہ دیکھیں آخر معاملہ کیاہے-  وہ صحابی ان دوسرے صحابی کے  پاس جاتے ہیں اور کسی عذر کی وجہ سے انکے گھر دو تین دن ٹھہرنے کی اجازت لیتے ہیں-  تین دن کے بعد وہ اپنے میزبان سے کہتے ہیں کہ میں نے ایک عذر کو بہانہ بنایا تھا آپکے ساتھہ رہنے کے لئے-  اور اسکی وجہ یہ تھی کہ رسول الله آپ کو دیکھ کر فرماتے تھے کہ وہ دیکھو جنّتی جارہا ہے-  میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کی وجہ سے آپ کو یہ مقام ملا- لیکن میں نے آپکو ایسا کوئی خاص عمل کرتے ہوۓ نہیں دیکھا جو ہم سب نہ کرتے ہوں-  ان میزبان صحابی نے فرمایا کہ بے شک آپ نے ٹھیک کہا-  میں ایک کام اور کرتا ہوں کہ سونے سے پہلے الله سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتا ہوں اور اس بات کی بھی کہ اگر میں نے کسی کے ساتھ برائی کی ہے-  پھر ہر اس شخص کے لئے معافی طلب کرتا ہوں جس نے میرے ساتھ کوئی برائی کی ہے-  اور انکو معاف کر کے سو جاتا ہوں-

بے شک معافی مانگنا اور معاف کردینا دل کو اطمینان دیتا ہے اور دل کا اطمینان صحت بخشتا ہے-

پرانے زمانے میں کھانوں کے طریقے  اور اندگی کے اصول آج جیسے نہیں تھے- آج کی طرح ہر وقت چکن، بریانی، میکرونی اور برگر نہیں کھاۓ جاتے تھے-  ہمارے گھر میں کھانے کا اصول تھا-  امی دوپہر کے وقت چاول بناتی تھیں-  کچھڑی، تہاری، مٹر چاول، دال چاول، وغیرہ-  اور شام کو روٹی ہوتی-  دوپہر کا کھانا ہم ایک بجے تک کھا لیتے تھے اور شام کا کھانا مغرب کے وقت-  سواۓ اس کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہو-  ان طریقوں میں فرق نہیں آتا تھا-  میرا نہیں خیال کہ ہمارے گھر میں کبھی کھانا ضائع ہوا ہوگا-  دیر تک امی نے کبھی نہیں سونے دیا-  چھٹی کے دن بھی صبح آٹھ جاتے-  فورا ناشتہ کرتے-  ہم سب سویرے کے اٹھے ہوتے تھے اس لئے دوپہر میں امی سب کو سلاتی تھیں-  میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے علاوہ سب دوپہر میں سو جاتے تھے-  وہ چپ چاپ کھیلتا اور میں کہانیوں کی کتابیں پڑھتی-  سہہ پہر میں سب آٹھ کر چاۓ کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھاتے-  کبھی پاپڑ تلتے، کبھی بسکٹ، کبھی کچھ اور-  رات کو عموما جلدی سو جاتے-  بقول امی کے، ہم پانچوں بہت اچھے بچے تھے کہ انکے اصولوں کے ساتھہ چلتے-

بڑے ہونے کے بعد اور جابز کرنے کے دوران ہم ضرور بے ترتیب ہوگۓ تھے-

پھر ہماری اولادوں نے ہمیں واپس امی کے طریقے کی اہمیت سکھائی-  پچھلے بارہ تیرہ سال میں شاید ہی ایک یا دو شادیاں اٹینڈ کی ہوں گی-  ایک میں تو لان کا ہی سوٹ پہن لیا تھا-  بیٹی کو زیادہ گھر پر ہی پڑھایا لہٰذا میں اور وہ، دونوں بلاوجہ کی پریشانیوں سے بچے رہے اور وہی پیسہ ہم نے اپنی دوسری خواہشوں پر خرچ کیا-  بیٹی کو شادی میں جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں دیا، بیڈ روم سیٹ بھی نہیں، اور نہ ہی اسکا مطالبہ ہوا-جو ایک بہت بڑی نیکی ہے-  جو کچھ خرچ ہوا بس اسکی پسند سے اسکی شادی کے طریقوں پر ہوا-

مطلب یہ کہ انسان کو خوشیاں اور سکون زمانے کے پیچھے چلنے سے نہیں بلکہ اپنے حالات کے مطابق اپنے طریقے پر چلنے سے ملتی ہیں-

انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور صحت کے لئے اچھی غذا بہت اہم ہے لیکن غذاایسی ہونی چاہیے جو صحت کے لیے مفید ہو ایسی چیزوں کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے جو صحت اور تندرستی کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اس طرح جو چیزیں اچھی لگیں اور جن کی خواہش اور طلب طبیعت میں پائی جائے، وہی غذا میں شامل ہونی چاہیے۔ غیر مرغوب اور ناپسندیدہ غذا کو طبیعت قبول نہیں کرتی اور اس سے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔

رسول اللہ ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب کھانا کھاتا تو اس کے بارے میں دریافت کرتے۔ اگر مزاج مناسب ہوتا تو استعمال کرتے ورنہ استعمال نہیں فرماتے تھے۔ حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں: (و کان قل ما یقدم یدہ لطعام حتی یحدث بہ و سم لہ) آپ ۖ اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف کم ہی بڑھاتے تھے جب تک کہ اس کے بارے میں گفتگو نہ کی جائے اور بتادیا نہ جائے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ ۖ کے سامنے بھنا ہوا گوشت آیا۔ جب بتایا گیا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے تو آپ ۖ نے نہیں کھایا۔ حضرت خالد بن ولید نے پوچھا کہ کیا یہ حرام ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا: حرام نہیں۔ ہمارے علاقے میں نہیں ہوتا اس لیے کراہت ہورہی ہے۔

(56) حلال کو حرام نہ کرلیا جائے:ذوق اور مزاج کی اہمیت ہے۔ اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، لیکن جو چیزیں حلال اور طیب ہیں ان سے خواہ مخواہ اجتناب صحیح نہیں۔ عملاً حلال کو حرام اور مباح کو ممنوع قرار دے لینا مزاج شریعت کے خلاف ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ سے عرض کیا: (ن من الطعام طعاما أتحرج منہ) کھانوں میں ایک کھانا ایسا ہے کہ اس کے کھانے میں مجھے تکلف اور حرج محسوس ہوتا ہے۔ آپۖ نے فرمایا: (لایتخلجن ف نفسک شء ضارعت منہ النصرانیة) تمہارے دل میں ایسی کوئی چیز کھٹک اور تردد پیدا نہ کرے کہ اس کی وجہ سے تم نصرانیت سے مشابہت اختیار کرلو۔(ابودائود)

جن غذائوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرادیا ہے ان کے علاوہ سب ہی غذائیں حلال ہیں۔ ان کے جواز میں شک و تردد اور ان کے استعمال میں بلاوجہ تکلف اور تامل رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا اصول حضرت عبداللہ بن عباس اس طرح بیان فرماتے ہیں: اہل جاہلیت بعض چیزیں (بغیر کسی کراہت کے) کھاتے اور بعض چیزوں کا کھانا ان کو ناپسند تھا۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو بعثت سے نوازا، اپنی کتاب نازل فرمائی، حلال کو حلال کیا اور حرام کو حرام ٹھہرایا۔ اس نے جس چیز کو حلال قرار دیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کہا وہ حرام ہے اور جس چیز کا ذکر نہیں کیا اس سے اس نے درگذر کیا(اس کے کھانے پر مواخذہ نہ ہوگا) (ابودائود)
غذائیں ایک دوسرے کی معاون ہوں:

کھانے میں ایک سے زیادہ چیزیں ہوں تو رسول اللہۖ اس بات کا خیال فرماتے تھے کہ وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کی معاون ہوں اور ان کا ایک ساتھ استعمال نقصان دہ نہ ہو۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ۖ کھجور کے ساتھ ککڑی کھاتے اور فرماتے کہ کھجور کی حدت کو ہم ککڑی کی ٹھنڈک سے توڑتے ہیں۔ (ابودائود) اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ آپۖ کھجور کے ساتھ مکھن استعمال فرماتے تھے۔ (ابودائود) یہ دونوں چیزیں بھی اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ کھجور کی خشکی مکھن سے دور ہوتی ہے۔
گندگی کھانے والے جانور نہ کھائے جائیں: اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ غذا صاف ستھری اور گندگی و آلائش کے اثرات سے بالکل پاک ہو۔ اس مقصد کی خاطر آپ ۖ نے ان حلال جانوروں کا بھی گوشت کھانے اور دودھ پینے سے منع فرمایا ہے جو گندگی کھانے کے عادی ہیں اس لیے کہ اس کے اثرات دودھ اور گوشت میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں: (نہٰی رسول اللّٰہ ۖ عن أکل جلالة و ألبانہا) (ابودائود) رسول اللہ ۖ نے گندگی کھانے والے جانور کے کھانے اور اس کا دودھ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے

اس سلسلہ کی بعض اور روایات بھی موجود ہیں علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ گندگی کھانے والے جانوروں کا گوشت کھانے سے ممانعت کے پیچھے پاکی، صفائی اور نظافت کا تصور ہے اس لیے کہ گندگی جس جانور کی غذا ہوگی، اس کے گوشت میں بھی بدبو پائی جائے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ گندگی اس کی زیادہ تر غذا ہو، لیکن اگر گھاس اور دانہ کے ساتھ گندگی بھی کھالے تو اسے جلالة (گندگی کھانے والا جانور) نہیں کہا جائے گا؛ جیسے مرغی حیوان ہے بسااوقات گندگی کھالیتی ہے لیکن یہ اس کی عام غذا نہیں، اس لیے اس کا کھانا مکروہ نہیں ہے۔(معالم السنن) کھانے میں صفائی کا خیال رکھا جائے:

کھانے میں صاف ستھری چیزیں استعمال کرنی چاہیے۔ گندی غذا بیماریوںکو جنم دیتی ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ V کی خدمت میں ایک مرتبہ پرانی کھجوریں پیش کی گئیں۔ آپۖ نے (انہیں کھانے سے پہلے) باریک کیڑے ان میں ڈھونڈ کر نکالے (اور انہیں صاف کیا) (ابودائود) حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ۖ کے سامنے پرانی کھجوریں لائیں جاتیں تو آپ ۖ ان میں جو کیڑے ہوتے تھے، انہیں خوب اچھی طرح نکال لیتے تھے۔ (ابودائود) کھانے پینے سے متعلق اسلام کے زریں اصول اور اسوۂ حسنہ حفظان صحت کا مؤثر ذریعہ اور فلاح آخرت کا ضامن ہے۔ (ماہنامہ الحق نومبر ١٩٩٣ئ) نیند، راحت بدن و روح: نیند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس سے بدن اور روح کو راحت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ اسلام اس نعمت سے استفادہ کرنے کی خصوصاً رات کے وقت تلقین کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اسی اللہ نے تمہارے لیے رات بنائی ہے تاکہ اس میں سکون پائو”۔ (سورہ یونس۔٦٧) اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا”۔ (و من آیاتہ منامکم باللیل و النھار)(الروم۔٢٣) سورہ فرقان میں ارشاد ہے: ”اور اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس اور نیند کو سکون کا باعث بنایا”۔ (الفرقان۔٤٧) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”اور سوجایا کرو کہ تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے”۔ (مسلم ) بچوں کی صحت میں بھی حلال غذا اور نیند و راحت کا بہت دخل ہے ورنہ بچے بہت سے لاعلاج امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

اگر آج بھی متوازن اور سادہ غذا کا استعمال اپنی روزمرہ کی زندگی میں کیا جائے ،مغربی امپورٹڈ غذائوں اور فاسٹ فوڈز سمیت کیمیکل سے بننے والی اشیاء سے گریز کیا جائے تو بہت سے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بروقت علاج ومعالجے سے بھی بڑے امراض سے خلاصی ممکن ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو پبلک ہیلتھ کی پالیسی انتہائی موثر ہے۔ یعنی مرض شروع ہونے سے پہلے ایسی احتیاطی تدابیر متوازن غذا ،صفائی ستھرائی وغیرہ کا لحاظ رکھنا جس کی وجہ سے وبا پھوٹنے یا مرض عام ہونے کا اندیشہ ہی پیدا نہ ہو ،اسی طرح ویکسین کا استعمال بھی پولیو سمیت دیگر امراض کا اثر مرض شروع ہونے سے پہلے کیا جاتا ہے۔کیونکہ یہ دفاعی طورپر بدن میں کام کرتا ہے۔ متوازن غذا صفائی وغیرہ یہ سب وہ عناصر ہیں جس کی وجہ سے ہم سینکڑوں امراض کا خاتمہ اس کے اثر شروع کرنے سے پہلے کرسکتے ہیں۔

خوراک کے سلسلے میں ہدایات

 

حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ متوازن خوراک سے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے۔ وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اور محنت کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹا ہوا ہے‘ ارشادِ خداوندی ہے:

 

’’کھائو‘ پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف:31) یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں۔ کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے‘ اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا‘ اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے‘ البتہ اس میں اعتدال سے کام لینا صحت کے لیے ضروری ہے۔ نہ کھانے‘ یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدہ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدہ کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 

’’معدہ بدن کے لیے تالاب ہے اور رگیں اسی کی طرف جسم کے مختلف حصوں سے وارد ہیں‘ جب معدہ صحیح حالت میں ہو تو رگیں بھی جسم کے تمام حصوں کو صحت (صحیح خون) مہیا کرتی ہیں اور جب معدہ بیمار پڑ جائے تو اس سے رگوں کے ذریعے تمام جسم بیمار پڑجاتا ہے۔‘‘(طبرانی۔ المعجم الاوسط) قدیم عربوں کے مشہور طبیب حارث بن کلدۃ کا قول ہے:

 

’’پرہیز دوا کا سر (بنیاد) ہے اور معدہ بیماری کا گھر ہے‘ ہر شخص کو وہ چیز کھانی چاہیے جو اس کے بدن کے مطابق ہو‘ اورکم خوراکی بہ ذاتِ خود ایک علاج ہے۔‘‘ اکثر امراض کا سبب ناقص غذا یا اس کا غیر مناسب طریقہ استعمال ہے۔ اگر غذا ضرورت کے مطابق اور انسانی مزاج کے مناسب ہو اور ضرورت سے زائد نہ ہو تو انسان زیادہ دیر تک بہت سارے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے آدابِ طعام اور کھانے پینے کے سلسلے میں بھی بھرپور ہدایات فرمائی ہیں‘ آپؐ کے بتائے ہوئے کھانے کے تمام طریقے حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق ہیں اور آپؐ کے ہر ارشاد میں طبی فلسفے مضمر ہیں۔ احادیث کی کتابوں میں آداب الطعام پر مستقل عنوانات موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اصولِ صحت کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ارشادات اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا خلاصہ یہ ہے:

 

-1

 

 

 

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادہ‘ نرم‘ زود ہضم‘ مرغوب اور مانوس غذائیں کھاتے تھے۔ کدو‘ گوشت‘ مکھن‘ دودھ ‘ جو اور گندم کی بغیر چھنے آٹے کی روٹی‘ شہد‘ سرکہ‘ نمک‘ زیتون کا تیل اور کھجور وغیرہ آپؐ کی مرغوب غذائیں تھیں۔ یہ وہ غذائیں ہیں جن کی افادیت پر تمام اقوام عالم متفق ہیں۔ ہر ملک اور ہر موسم میں ان کا استعمال مفید اور صحت بخش ہے۔ آپؐ کی غذا حیوانی اور نباتی دونوں طرح کی تھی۔

 

-2

 

 

 

 کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کھانا کھا کر یہ دعا پڑھے: (ترجمہ)’’اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں کھلایا‘ پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا ہے۔‘‘ کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھولیا کرتے تھے۔

 

-3

 

 

 

 جب تک کھانے کی اشتہا نہ ہوتی‘ کبھی نہ کھاتے، اور ابھی اشتہا باقی ہوتی کہ کھانا ختم کردیتے۔

 

-4

 

 

 

 کھانے کے فوراً بعد سونا پسند نہیں فرماتے تھے‘ بلکہ چہل قدمی کرتے یا نماز پڑھتے۔

 

-5

 

 

 

 تکیہ لگا کر کھانا کھانا پسند نہ فرماتے‘ کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تکیہ لگانے سے معدہ کی حالت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ کھانا اچھی طرح بہ آسانی اپنی جگہ نہیں پہنچتا اور ہضم ہونے میں دیر لگتی ہے۔ (جاری ہے)

 

-6

 

 

 

 تین انگلیوں سے کھانا کھاتے۔

 

-7

 

 

 

 گرم اور سرد اور دیگر متضاد اثر والی غذائیں جمع نہیں فرماتے تھے اور موسموں کے مطابق غذا میں تبدیلی لاتے تھے۔

 

-8

 

 

 

 کئی دنوں تک مسلسل ایک ہی قسم کی غذا نہیں کھاتے تھے بلکہ اس میں مناسب تبدیلی لاتے تھے۔

 

-9

 

 

 

 کھانا کھانے میں عجلت سے کام نہیں لیتے تھے‘ آہستہ آہستہ کھاتے تھے۔

 

-10

 

 

 

 بیٹھ کر کھاتے تھے‘ بیٹھنے کا انداز عاجزانہ اور متواضعانہ تھا۔ آپؐ دو زانوں ہوکر تشریف رکھتے اور اپنے قدموں کی پشت پر بیٹھتے یا دایاں قدم کھڑا کرکے‘ بائیں قدم پر تشریف رکھتے تھے۔

 

-11

 

 

 

 گرم کھانے میں پھونک نہیں مارتے تھے اور نہ گرم گرم کھاتے، بلکہ اس کے سرد ہونے تک انتظار فرماتے۔ گرم کھانا معدے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ٹھنڈا پانی پینے سے دانتوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

 

-12

 

 

 

 ہمیشہ آپؐ سامنے سے کھانا کھاتے تھے اور وہی کھاتے جو آپؐ کے قریب ہوتا۔

 

-13

 

 

 

 آپؐ نے کبھی بھی طعام میں عیب نہیں نکالا اور نہ کبھی اس کی مذمت کی۔ کیونکہ یہ طعام کی بے عزتی اور توہین ہے۔ اگر کھانا طبیعت کے موافق ہوتا تو تناول فرماتے‘ ورنہ چھوڑ دیتے۔

 

-14

 ان سبزیوں کے کھانے سے پرہیز کرتے جن کی بو سے دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو… مثلاً کچی پیاز‘ لہسن یا دیگر بدبودار اشیائ۔ البتہ ان چیزوں کو پکا کر کھالیتے یا کھانے کے بعد منہ اچھی طرح صاف کرلیتے یا کوئی ایسی چیز کھالیتے جس سے اس کی بدبو ختم ہوجائے۔

علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ غذا استعمال فرماتے تھے جس میں مندرجہ ذیل تین اوصاف ہوں:

-1

 قوائے جسمانی کے لیے مفید ہو۔

-2

 معدے کے لیے خفیف اورنرم ہو۔ 

-3 

جلد ہضم ہونے والی ہو۔ (زادالمعاد‘ کتاب الطب) ان تمام آداب سے خوراک کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نفاستِ طبع اور حسنِ انتخاب کا پتا چلتا ہے۔ ان کے اثرات جسمِ انسانی پر دوررس اور مفید ہیں اور صحت و صفائی کے ساتھ ان کا گہرا رابطہ ہے۔ پینے کے آداب:

 

خوراک کے ساتھ ساتھ پانی اور مشروبات بھی انسانی زندگی کا حصہ ہیں‘ کیوں کہ ہوا کے بعد زندگی کو قائم رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ انسانی جسم میں اس کے کل وزن کا دو تہائی پانی ہوتا ہے اور ایک نوجوان اور تندرست آدمی کے جسم سے پسینہ‘ پیشاب اور دیگر فضلات کے ذریعے روزانہ تقریباً ڈھائی سیر پانی خارج ہوتا ہے۔ پانی ہی کے ذریعے غذا سے خون بنتا ہے اور زہریلے مواد پیشاب اور دیگر فضلات کے ذریعے خارج ہوتے ہیں۔ لیکن وہی پانی مفید اور صحت بخش ہے جو صاف ستھرا اور ہر طرح کی گندگیوں‘ غلاظتوں اور آلائشوں سے پاک و صاف ہو اور ضرورت کے وقت مناسب طریقے سے پیا جائے۔ اسی لیے پانی اور دیگر مشروبات کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایات دی ہیں اور اپنی عملی زندگی میں برت کر یہ اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے چھوڑا ہے:

 

-1 

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سادہ پانی بھی پیتے اور کبھی اسے شہد‘ دودھ اور کھجور کے خمیرے کے ساتھ ملا کر بھی پیا کرتے تھے۔ سادہ پانی صرف پیاس بجھاتا ہے جبکہ دودھ‘ شہد اور دیگر میٹھی اشیاء کے ساتھ مخلوط پانی غذا اور مشروب دونوں کا کام دیتا ہے۔ خصوصاً شہد کے ساتھ ملا ہوا پانی تو کئی امراض کا علاج بھی ہے۔ اس سے بلغم نرم ہوکر ختم ہوجاتا ہے‘ معدہ صاف ہوتا ہے‘ جگر کو تقویت ملتی ہے اور صفرا کے مضر اثرات ختم ہوجاتے ہیں۔ امام ترمذی نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے ‘ وہ فرماتی ہیں:

 

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مشروب پسند تھا جو میٹھا اور ٹھنڈا ہو۔‘‘(ترمذی) اس سے معلوم ہوا کہ مشروب میں ان دو اوصاف کا موجود ہونا بہت ضروری ہے۔ یعنی میٹھا ہو اور مناسب حد تک ٹھنڈا بھی ہو۔ اس قسم کا مشروب بدن کے لیے بہت ہی مفید ہوتا ہے۔ روح کو فرحت اور سرور نصیب ہوتا ہے‘ جگر اور دل کو تقویت پہنچتی ہے اور تمام قوائے جسمانی خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔ چشموں اور کنوئوں کا تازہ پانی اور ان مٹکوں اور برتنوں کا پانی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے جن سے مسام کے ذریعے پانی اور ہوا خارج ہوتی ہو۔ 

-2

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبِ زم زم کے علاوہ دیگر پانی بیٹھ کر پینا پسند فرماتے تھے‘ کیونکہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے پیاس اچھی طرح نہیں بجھتی اور پانی معدے میں قرار نہیں پاتا۔ بیٹھ کر پانی پینے کے بعد جگر اس کو تمام اعضا میں بہ قدرِ ضرورت تقسیم کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پینے سے پانی پوری سرعت اور تیزی کے ساتھ نیچے اترتا ہے‘ اس لیے دفعتاً معدہ اور دیگر اعضا گرم سے سرد پڑ جاتے ہیں‘ جو اکثر بیماریوں کا سبب ہے۔ جبکہ بیٹھ کر پینے سے پانی تدریجاً اپنا عمل کرتا ہے۔ 

-3  

 حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشروب پیتے وقت تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ بہت ہی خوشگوار‘ مزے دار اور صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ پانی اور دیگر مشروبات پیتے وقت تین سانس لینے کے کئی طبی فوائد ہیں‘ جن کی نشاندہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی ہے:

-1

 پیاس اچھی طرح بجھتی ہے۔

-2 

 زود ہضم‘ خوشگوار اور لذیذ ہوت

-3

 اس میں شفا بھی ہے‘ کیونکہ جب پیاس کی حرارت کو تدریجاً کم کیا جائے تو اس سے معدہ گرم سے سرد نہیں پڑتا۔ اس میں حرارت عطشی کو تدریجاً کم کرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے قوی سے ضعیف اور ضعیف تر بنادیا جاتا ہے، اور یہی پیاس بجھانے کا بہترین فطری طریقہ ہے، کیونکہ اس سے معدہ پر بیک وقت زیادہ بوجھ نہیں پڑتا۔ سانس سے اس کو استراحت اور آرام ملتا ہے اور اس وقفے میں پیاس کی کمی کا اندازہ بہ آسانی لگ سکتا ہے۔

-4

 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے‘ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ برتنوں کو ڈھانپو اور مشکیزوں کو بند رکھو‘ کیونکہ سال میں ایک رات وباء اترتی ہے اور جس برتن یا مشکیزے کا منہ بند نہیں ہوتا اس میں یہ بیماری اتر جاتی ہے۔(مسلم) مٹکوں اور مشروبات کے دیگر برتنوں پر ڈھکنا رکھنا طب و صحت کا ایک مانا ہوا اصول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عادت ڈالنے کے لیے یہاں تک تاکید کی ہے کہ اگر کوئی چیز میسر نہ آئے‘ تو اس پر ایک تنکا ہی رکھ دیں اور رکھتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیں۔ ڈھکنا رکھنے سے برتن گردوغبار‘ مکھی‘ مچھر اور دیگر زہریلے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہتا ہے۔ 

-5

 

 کھانے کی طرح پینے سے پہلے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور دودھ کے علاوہ دیگر مشروبات پینے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے:

 

(ترجمہ) ’’اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور اس سے بہتر نعمت عنایت فرما۔‘‘ دودھ پینے کے بعد یہ دعا پڑھتے:

 

(ترجمہ) ’’اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت عطا فرما اور یہ نعمت ہمیں اور بھی زیادہ عنایت فرما‘‘۔ (یہ اس لیے کہ غذائی مواد میں دودھ سے بہتر نعمت کوئی نہیں)

 

-6

 

 

 

 برتن میں سانس لینا بھی صحیح نہیں‘ اس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف ارشاد ہے:

 

(ترجمہ) ’’پیالے کو اپنے منہ سے الگ کرو اور پھر سانس لو۔‘‘

 

-7 

 کوزے یا بند برتن سے بھی پانی پینا مناسب نہیں‘ کیونکہ اس طرح پانی نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے اور کیڑے مکوڑے یا تنکے وغیرہ کے پیٹ میں جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مزید برآں پیٹ‘ پانی کی جگہ ہوا سے بھر جاتا ہے اور انسان مشروب سے اچھی طرح لطف اندوز نہیں ہوتا‘ اور اس سے پیٹ میں درد پیدا ہونے کا امکان بھی ہوتا ہے۔ ان ہدایات سے پتا چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مشروبات کے بارے میں کس قدر قیمتی ارشادات سے نوازا ہے اور صحت کی حفاظت کے لیے کسی معمولی نکتے سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا‘ جس سے آپؐ کے ارشادات و تعلیمات کی ہمہ گیریت کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور
انسان کی صحت کا راز پاک و صاف غذا میں مضمر ہے۔ غذا سے متعلق اسلام کی تعلیمات میں اصول صحت کی پوری رعایت موجود ہے، ان پر عمل سے صحت پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آدمی امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
میٹھے پانی کا اہتمام:
صحت کے لیے صاف اور میٹھے پانی کی بنیادی اہمیت ہے۔ گندے اور ناپاک پانی سے بہت سی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ صاف اور شیریں پانی استعمال ہو تو آدمی ان بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اس کی صحت برقرار رہ سکتی ہے۔ رسول اللہ ؐ اور صحابہ کرام ث سے اس کا اہتمام ثابت ہے۔
حضرت ابوطلحہؓ کا ایک باغ بیرحاء نام کا تھا۔ یہ مسجد نبوی ؐ کے سامنے واقع تھا۔ اس کا پانی صاف اور میٹھا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ ؐ اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا پانی نوش فرماتے تھے۔ (بخاری )
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے لیے میٹھے پانی کا خاص اہتمام بھی ہوتا تھا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ پہنچ کر آپ ؐ حضرت ابویوب انصاری b کے مہمان ہوئے۔ وہ آپ ؐ کے لیے حضرت انسؓ کے والد مالک بن نضر کے کنویں سے میٹھے پانی کا انتظام کرتے تھے۔(فتح الباری‘ ج ۱۰‘ ص۷۴)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بیوت سقیاء سے آپ ؐ کے لیے پانی لایا جاتا تھا۔ مدینہ سے اس کا کافی فاصلہ تھا۔ امام ابن قتیبہ ؒ کا بیان ہے کہ دو دن کا فاصلہ تھا۔(ابوداؤد)
رباح الأسود جو آپ ؐ کے غلام تھے وہ ایک مرتبہ آپؐ کے لیے ایک مرتبہ بئر عرس سے پانی لاتے تو دوسری بار بیوت سقیاء سے فراہم کرتے۔
حضرت انس، حضرت ہند اور حضرت حارثہ ث جو حضرت اسماءؓ کی اولاد ہیں، ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں بیوت سقیاء سے پانی پہنچاتے تھے۔ (فتح الباری ج۱‘ص۷۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ث اپنے گھروالوں کیلئے میٹھے پانی کا اہتمام فرماتے تھے۔ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میٹھے پانی کا اہتمام زہد کے منافی نہیں۔ یہ تعیش بھی نہیں ہے جس کی مذمت کی گئی ہے۔ میٹھا پانی پینا اور منگوانا مباح ہے۔ صلحا کا اس پر عمل رہا ہے۔ کھاری پانی کے استعمال میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔(فتح الباری ؍۱۰‘ص۷۴)
ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ نے بھوک محسوس کی۔ آپ ؐ ایک انصاری حضرت ابوالہیثمؓ کے گھر کی طرف چلے تو یہ دونوں بزرگ بھی ساتھ ہولیے۔ جب گھر پہنچے تو ان کی اہلیہ نے خوش آمدید کہا اور بتایا ’’ذھب یستعذب الماء‘‘ وہ میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ اتنے میں حضرت ابوالہیثمؓ بھی پہنچ گئے اور آپ حضرات کی ضیافت کی۔ (مسلم )
اسوۂ حسنہ سے جیسے معلوم ہوا کہ میٹھا پانی پینا مستحسن ہے اور کھارے پانی پینے اور استعمال کرنے میں تقوی و دین داری کے خلاف کوئی نہیں اسی طرح اسلام کھانے پینے اور دیگر اشیا کو ڈھانپ کر رکھنے اور آلودگی سے بچانے کا حکم دیتا ہے۔ (خمروا الإناء)(ترمذی ) رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ ’’برتن کو ڈھانپ کر رکھو‘‘۔ (أوکؤا السقاء و أکفؤا الإناء)(مسلم ) رسول اللہ ؐ نے فرمایا: کھانے اور پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھو‘‘۔
جس پانی کو اللہ تعالیٰ آسمان سے برساتا ہے وہ پاک، صاف ستھرا، پینے کے موزوں اور طہارت کے قابل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ھو الذی انزل من السمآء مآء) (النحل ۔۱۰) وہی ہے جس نے تمہارے پینے کے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ (و انزلنا من السمآء مآء طہورا) (الفرقان۔۴۸) اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا۔ (و انزل من السمآء مآء لیطھرکم)(الانفال ۔۱۱) اور وہ آسمان سے تم پر پانی برساتا ہے تاکہ تمہیں پاک کرے۔
اسلام ہمیں پانی کو آلودہ اور ناپاک بنانے سے منع کرتا ہے، خصوصاً ٹھہرے ہوئے پانی کو اسی لیے اس میں پیشاب، پاخانہ اور غسل کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے‘‘۔ (لا یبولن أحدکم في الماء الدائم) (بخاری ) دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’تم اس ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرو جو چلتا نہیں پھر اس میں نہانے لگو‘‘۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز غسل نہ کرے‘‘۔ اسی طرح ارشاد نبوی ؐ ہے: ’’لعنت کے تین کاموں سے بچو۔ پانی کے مقامات، راستے کے درمیان میں اور سایے میں پاخانہ کرنے سے‘‘۔ (اتقوا الملاعن الثلاث: البراز في الموارد و الظل و قارعۃ الطریق) (ابن ماجہ )
ان تمام آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسے گندگی، غلاظت اور کیڑے مکوڑوں کے گرنے سے محفوظ رکھنا چاہیے جو بیماری کے اسباب کو منتقل کرتے ہیں اور امراض کا باعث بنتے ہیں۔
جس طرح بڑوں کو یہ ہدایت ہے اسی طرح بچوں کے لئے بھی صاف اور شفاف پانی کا اہتمام وانتظام ضروری ہے۔ بچوں کے لئے صاف پانی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ڈینگی مرض: آج کل وطن عزیز میں ڈینگی بخاری سے ہزاروں لوگ ہسپتالوں میں پڑے ہیں اورسینکڑوں لوگ اس کا لقمہ اجل بنے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری بالٹیوں‘ کنوؤں اور جوہڑوں میں موجود گندہ پانی ہے۔جس میں اس ڈینگی مچھر کی نشوونما ہوتی ہے‘ اگرحضورﷺ کے پاک ارشادات پر عمل کرکے پانی کو ڈھانپے توا س مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ہرسال پانچ سال تک کے ساڑھے سات لاکھ بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے دوسرے بچے ان بیماریوں سے معذور ہوجاتے ہیں‘ ان میں سے کافی
تعدا د میں بچوں کو آسان علاج ‘ مناسب دیکھ بھال اور وقت پر حفاظتی ٹیکے لگوا کر بچایا جاسکتا ہے۔ بچے کی عمر کے دوسرے سال کے دوران خسرہ کا دوسرا ٹیکہ بھی ضرور لگوائیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال تقریباً سات لاکھ بچے نمونیہ کا شکار ہوجاتے ہیں‘ جن میں سے 27ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔5سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں 5.7 فیصد کی وجہ نمونیہ ہے۔جبکہ پولیو کی وجہ سے پاکستان پر سفری پابندیاں لگ رہی ہیں۔اس وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ویکسی نیشن سسٹم کو مزید موثر اور محفوظ کیا جائے۔علمائے کرام اس حوالے سے عوام الناس کے شکوک و شبہات کا خاتمہ کریں۔ کیونکہ عالم اسلام کے تمام علمائے کرام مذہبی قائدین اوراسلامی طبی تنظیمیں ،عالمی اسلامی ادارے وغیرہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اورمغرب کے دوسرے ممالک میں یہ مرض اِسی ویکسین کے ذریعے ختم ہوا،تو عالم اسلام میں بھی یہ صرف اسی ویکسین کے ذریعے ختم ہو گا۔