فتنہ کیا ہے۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف فتنے اسلام نظریات سے کیسے ختم کیئے گئے۔ یہ سب باتیں آج کا مسلمان، یا نئی نسل بہت نہیں جانتی۔ نا ہی میری معلومات اس کے بارے میں آپ سب سے زیادہ ہے۔ مگر ایک ٹیلیوزن پروگرام دیکھتے وقت میرے زہن میں آیا کہ آج کا سب سے بڑا فتنہ کیا ہے۔ میرے ادنا سے زہن نے آج کے فتنہ کو فیشن کا نام دیا۔ یا فیشن کے نام پر بے پردگی ، یا نیم عریانی۔

پہلے ہم اسلامی نظریات کی بات کر لیں

اسلام میں پردہ کی اہمیت اور شرعی حکم

(24) سورۃ النور (مدنی، آیات 64)

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْـهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِىٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِىٓ اَخَوَاتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التَّابِعِيْنَ غَيْـرِ اُولِى الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّـذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرَاتِ النِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۚ وَتُوْبُـوٓا اِلَى اللّـٰهِ جَـمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُـوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (31)
اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے، اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔
 
(33) سورۃ الاحزاب (مدنی، آیات 73)
 
وَقَرْنَ فِىْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجْنَ تَبَـرُّجَ الْجَاهِلِيَّـةِ الْاُوْلٰى ۖ وَاَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكَاةَ وَاَطِعْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ ۚ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْـرًا (33)
اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے۔
 
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (59)
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
 

اس آیت میں ” جلباب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں کہ جو پورے جسم کو چھپالے۔ مراد یہ ہے کہ چادر اچھی طرح لپیٹ کر اس کا ایک حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کرو تاکہ جسم اور لباس کی خوبصورتی کے علاوہ چہرہ بھی چھپ جائے۔ البتہ آنکھیں کھلی رہیں۔ مندرجہ ذیل احادیثِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے زمانے میں اس حکم پرعمل کس طرح کیا گیا :

واقعیات

٭٭۱ – واقعہ افک ( جس کے دوران عبداللہ بن ابی نے حضرت عائشہ پر بہتان لگایا تھا )کے متعلق حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلاگیا ہے تومیں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ میں وہیں پڑ کر سو گئی۔ صبح کو حضرت صفوان بن معطل وہاں سے گزرے تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر وہاں آگئے۔ وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے کیوں کہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے پہچان کر جب انہوں نے ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِع ±ون َ“ پڑھا تو ان کی آوا ز سے میری آنکھ کھل گئی او ر میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا“۔حدیث میں الفاظ یوں ہیں کہ” فخمرت ± وجھی عنہ بجلبابی“ میں نے ان سے اپنے چہرے کو اپنی چادر کے ذریعے ڈھانپ لیا ‘ ‘۔ ( بخاری – مسلم )

٭٭۲ – ایک خاتون جن کا نا م ام خلاد تھا ‘ نبی اکرم کی خدمت میں اپنے بیٹے کا جو قتل ہوچکا تھا انجام دریافت کرنے آئیں اور و ہ نقاب پہنے ہوئے تھیں۔ نبی اکرم کے ایک صحابی نے ان کی اس استقامت پرتعجب کرتے ہوئے کہا کہ نقاب پہن کر آپ بیٹے کا حال دریافت کرنے آئی ہیں۔ انہو ں نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میرا بیٹا مرا ہے میری حیا نہیں مری ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ نے ان کوتسلی دی کہ تمہارے بیٹے کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ایساکیوں ہوگا یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا ا س لئے کہ ا س کو اہلِ کتاب نے قتل کیا ہے “۔ (ابوداود )

٭٭۳ – حضرت عائشہ حجة الوداع کے موقع پر سفر کے بارے میں فر ماتی ہیں کہ” قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم رسول اللہ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھیں۔ جب قافلے ہمارے سامنے آتے ہم بڑی چادر سر کی طرف سے چہرے پر لٹکا لیتیں اور جب و ہ گزر جاتے ہم اس کو اٹھا دیتیں “۔ (ابوداود )

٭٭۴ – امام جعفر صادق اپنے والد اما م محمد باقر سے اور وہ حضر ت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روا یت کرتے ہیں کہ حجة الوداع کے موقع پر نبی اکرم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباس ( جو اس وقت نوجوان لڑکے تھے ) مشعرِحرام سے واپسی کے وقت نبی اکرم کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل بن عباس ان کی طرف دیکھنے لگے تو نبی اکرم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اوراسے دوسری طرف پھیر دیا“۔ ( ابوداود )

 
 ستر و حجاب میں فرق
پردے کے حوالے سے اکثر لوگ ستر اور حجاب میں کوئی فرق نہیں کرتے حالانکہ شریعتِ اسلامیہ میں ان دونوں کے احکامات الگ الگ ہیں۔ سترجسم کا وہ حصہ ہے جس کا ہر حال میں دوسروں سے چھپا نا فرض ہے ماسوائے زوجین کے یعنی خاوند اور بیوی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے اور عورت کا ستر ہاتھ پاؤں اور چہرے کی ٹکیہ کے علاوہ پورا جسم ہے۔ ایک دوسری روا یت کے مطابق عورت کا سارا جسم ستر ہے سوائے چہرے اور ہاتھ کے۔ البتہ عورت کے لئے عورت کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ معمول کے حالات میں ایک عورت ستر کا کوئی بھی حصہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں کھول سکتی۔ ستر کا یہ پردہ ان افراد سے ہے جن کو شریعت نے ” محرم “ قرار دیا ہے۔ ان محرم ا فراد کی فہرست سورة النور آیت ۳۱ میں موجود ہے۔ ستر کے تمام احکامات سورة النور میں بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیلات احادیث نبوی میں مل جاتی ہیں۔ گھر کے اندر عورت کے لئے پردے کی یہی صورت ہے۔
حجاب عورت کا وہ پردہ ہے جسے گھر سے باہر کسی ضرورت کے لئے نکلتے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں شریعت کے وہ احکامات ہیں جو اجنبی مردوں سے عورت کے پردے سے متعلق ہیں۔ حجاب کے یہ احکامات سورة الا حزاب میں بیان ہوئے ہیں۔ان کا مفہوم یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت جلباب یعنی بڑی چادر ( یا برقع ) اوڑھے گی تاکہ اس کا پورا جسم ڈھک جائے اور چہرے پر بھی نقاب ڈ الے گی تاکہ سوائے آنکھ کے چہرہ بھی چھپ جائے۔ گویا حجاب یہ ہے کہ عورت سوائے آنکھ کے باقی پورا جسم چھپائے گی۔
 
مگر آج کی عورت ان تمام معلوماتی علم کو رد کرتی ہوئی فیشن کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔  عورت تو لا علمی یا فیشن کی حوس کا شکار ہے۔ پر کیا اس عورت کا باپ، بھائی، شوہر اسکو اس لا علمی سے نہیں نکال سکتا۔ عورت کا قدم گھر سے باہر نکلنے سے پہلے اسکے پہناوے پر ایک نظر نہیں ڈال سکتا۔
 
میڈیا خواتین کی نیم عریانیت پھیلانے میں اولین کردار ادا کر رہا ہے۔ ہماری ماڈلز نیم عریاں ہو چکی ہیں۔ نا محرم مرد عورت ڈرامہ کا کردار ادا کرنے کے نام پر ایک دوسرے کے کندھوں کا سہارا لینا۔ ایک بستر پر لیٹ کر کردار ادا کرنا، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گفتگو کرنا سیکھ چکے ہیں ۔ تو وہ وقت بھی دور نہیں ہوگا جب باقائدہ عریانیتے ہمارے معشرے کا حصہ ہو گی ۔کیونکہ ہمارے میڈیا پر بالی وڈ اور ہالی وڈ کی چھاپ ہے ۔ہماری اپنی تو کوئی پہچان رہی نہیں۔ ہماری پاکستانی میڈیا خواتین کم از کم با پردہ ہو کر میڈیا پر آ سکتی ہیں۔ اور اگر وہ با پردہ میڈیا پر آنے کو تیار نہیں تو ان پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ ہماری حکومت میڈیا پر خواتین کی بے پردگی کی روک تھام کر سکتی ہے۔ 
 
ہماری بہت سی ہوسٹ اسلامی پروگرامز میں ننگے سر مزہبی سکالرز کے سامنے بیٹھی گفتگو کر رہی ہوتی ہیں۔ ہمارے مزہبی سکالرز انسے گفتگو سے انکار کر سکتے ہیں یہ کہ کر کہ با پردہ خواتین کے رو برو ہو کر ہی گفتگو ممکن ہے۔ مگر یہاں اس بات کو آج کی ضرورت کہ کر رد کر دیا گیا ہے۔ کیوںکہ چینل کی ریٹنگ ضروری ہے۔ ایمان کی کوئی ریٹنگ نہیں رکھی جاتی۔ جب ہم خود اپنے مزہب اور اپنے اطوار کو روندتے ہوئے گزر جائیں گے۔ تو ہمیں دیکھنے والی نسلیں کس چھاپ کے زیر سایہ عمل پیرا ہونگی۔ 
میڈیا کا خاص طور پر زکر کرنے کا مقصد یہ ہی ہے کہ ۔ صرف اور صرف میڈیا کی چھاپ لگ چکی ہے ہم لوگوں پر۔ کیا ان ہے۔ کیا آؤٹ ۔ یہ ہمیں صرف میڈیا سے آگاہی ہوتی ہے۔ تو کیا میڈیا کا فرض نہیں کہ اسلام کی چھاپ ڈالیں نسل پر۔ 
 
اگر پردہ آج کا سب سے بڑا فتنہ نظر آ رہا ہے۔ اس حساب سے میڈیا دوسرا بڑا فتنہ ہوا۔ ہم میڈیا کو فتنہ بنانے کی بجائے مسلمان کی طاقت بھی تو بنا سکتے ہیں۔ ہم جو آہستہ آہستہ مغربی کلچر اپناتے جا رہے ہیں ۔ ہم میڈیا کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اس کلچر کو پیچھے بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ 
 
آج کیوں کسی مزہبی سکالر کی آواز بے پردگی کے خلاف نہیں اٹھتی۔
کیوں کوئی بھائی ، باپ ، شوہر اپنی عزت کو گھر سے باہر بے پردہ گھومنے کی اجازت دیتا ہے۔ 
آج کیوں ایک عورت جھجھک نہیں جاتی جب ایک نا محرم کی نگاہ اسکی طرف اٹھتی ہے۔ 
 
صرف اسلیئے ہی کہ عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کے نام پر نیم عریاں دیکھنا پسند کیا جانے لگا ہے۔ ہم نے نئے دور میں داخل ہونا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نئے دور میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتی۔ پھر ہم کیوں جدت اپنانے کی آڑ میں عریانیت اپنا رہے ہیں۔ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے ، اس لیحاظ سے اسلام علم اور جدت پسندی کے خلاف نہیں۔ مگر کیا علم حاصل کرنے کے لیئے جدید کپڑے ۔ ننگا سر، بغیر آستین کی قمیض، ٹخنوں سے اونچے ٹراؤزر، بڑے گلے۔ گیلی زلفیں۔ ہونی ضروری ہیں۔ کیا ان سب کے بغیر ہم علم حاصل نہیں کر سکینگے۔ یا میڈیا پر پروگرامز نہیں کر سکیں گے۔ 
 
میری درخواست ہے تمام اہل ایمان سے کہ ۔ کچھ اس فتنے کی طرف بھی دھیان دیں۔ 
شکریہ