Written By Ruby Akram
ہمارے ملک ہی کیا یہ تو اس دنیا کا سب سے برا المیہ رہا ہے کے ہر کوئی اپنے دل کی بات کہنا چاہتا ہے ، اب اس کے لئے چاہے کاغذ مل جائے ، کسی کی کھا ل مل مل جائے یا کسی سکول میں کس بچے کا گال مل جائے بس اظہار ہونا چاہیے .پر ہماری سوچ اتنی محدود اور ہمارے حوصلے اتنے پست ہیں کے ہم اظہار کے تمام طریقے تو سر آنکھوں پے سجا لیتے ہیں ، پر وال چاکنگ کا طریقہ جو در حقیقت ہماری عوامی سوچ کی اکاسی کرتا ہے اس کو ہم برداشت نہیں کر پاتے.ٹھیک ہے جا بجا دیواروں پے لکھے ہوئے بے مقصد الفاظ جن میں بلا وجہ کسی کو گالی دی گئی ہو، بلا وجہ کسی کو پریشان کیا گیا ہو ہم اسکی مذمت کرتے ہیں ، کسی دیوار پے کسی طبیب کا تذکرہ ہے تو کسی دیوار پے حبیب کا تذکرہ .اب ان دونون تذکروں میں ظاہر ہے طبیب کا تذکرہ تو اس قابل ہے کے کسی کے کام آ سکے یا اس پے کرم کی نگاہ ہو، مگر یہ حبیب کا تذکرہ ووبھی کسی لڑکیوں کے کالج ، بچیوں کے سکول کیا جائے تو یکیناً کون اس کو برداشت کر سکے گا. گرفتاریاں تو عمل پیرا ہونگی. ہنگامے تو برپا ہونگے .
ایسے ہی اگر جن دیواروں پے گستاخان رسول کے خلاف بات لکھی جائے اور ان پے بغیر سوچے سمجھے راہ چلتا اپنی حاجت پوری کرے تو کتا کہلانے کا مستحق تو ہوگا ہی.مگر اگر ان ہی دیواروں پے سیاسی گفتگو پے سیاسی عوامل پے اپنی رائے کا کوئی اظہار کر رہا ہے تو یکیناً حق رکھتا ہے کے اپنی بات کو عوام دار عوام آگے بڑھا سکے ، لوگوں میں سیاسی بیداری پیدا کر سکے.ایک جواں خون جو نت نیے جذبوں کو لے کر جواں ہوا ہے، نی سوچ اس میں بیدار ہی ہے، اور اپنی سوچ کا اظہر بھی چاہتا ہے.پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو وو کیا کرے.وال چاکنگ نہ کرے تو کیا کرے.
وال چاکنگ کیا ہے اصل میں دل کا غبار باہر نکالنے کا ایک ذریہ ہے.ایک ام آدمی کیا کرے..اپنے دل کیسے سمجھاے ، ایک آم آدمی جس کا کوئی سیاسی یا معاشی مکام نہیں وہ بھی جینے کا جاگنے کا بولنے کا، سنننے کا اور اپنی رائے دینے کا حق رکھتا ہے .آخر ایک آم آدمی جس کے دل میں اپنے ملکی حالات، اپنے سیاسی حالات اور معاشی حالات لے کر ذہن میں سوالات ہیں یا جو ولولے ہیں انکا وہ برملا اظہار آخر کرے توح کرے کیسے.آپ پاکستان کے سیاسی حالت ہی دیکھ لیں ، کس قدر سیاسی مسائل کا شکار ہیں ، حالات یہ ہیں کے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے. کہیں دروں حملے ہو رہے ہیں تو کہیں خود کش حملے ، کہیں سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی پارٹیاں تبدیل کر رہی ہیں تو کہیں اپنے بیانات ،اب ایسے میں ایک آم شہری اپنے برملا ولولوں کا دکھوں کا اور حالات کا ذکر والل چاکنگ سے نہیں کرے گا تو اور کیسے کرے گا.
وال چاکنگ کی وجہ ترقی پذیر ممالک میں یہ ہے. یہاں کمزور اداروں، سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بحران،احتساب اور کرپشن کی موجودگی عام واقعات ہیں. ان تمام عوامل کی فکر، عدم تحفظ کا احساس، اور لوگوں میں منفی جذبات پیدا کرتے ہیں. ان ممالک میں وال چاکنگ اکثردیکھی جاتی ہے کیونکہ یہ جذبات کے اظہار کا ایکذریع بن جاتا ہے.لہٰذہ بجاے اس کے کے پاکستان میں اس اظہار کے طریقے کو نہ پسند کیا جائے ، سیاسی حلقوں میں سیاسی بدداری پیدا کی جائے ا اور جمہوری رویئے اختیار کرتے ہوئے عوام میں سیاسی شعور اور علم بیدار کیا جائے ، اور عوام کو اس سوچ کا حامل بنایا جائے کے اپنے ہی ملک کی دار دیواروں سے کھیلنے اور ان کی بنیادیں ہلانے کی بجاے کچھ اپنے ہاتھ پاؤں اور دماغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کو ایسی راہ پے گامزن کرنے میں لگ جاہیں کے اس ملک کو والل چاکنگ کیا کسی خوفناک خطرے کا بھی خوف نہ رہے.
اس کے لئے ضروری ہے کے جمہوری رویے اختیار کرتے ہوئے عوام کے ساتھ براہ راست سیاسی تنازعات پر خیالات کا تبادلہ کیا جائے اور عوام کو پر امن فضا پیدا کرنے کی ترغیب دی جائے ،اور ایسا کرنا نا ممکن نہیں ہے. بس ضرورت اس بات کی ہے کے عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کیا جائے.اور ترقی یافتہ ممالک کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے عوام کو پیداواری کاموں میں استعمال کیا جائے نہ کے سیاسی بد مزگی پیدا کی جائے.ہمارے حالات ہم آج نہیں بدلیں گے ہماری سوچ ہم آج تعمیر نہیں کرینگے ہمارے جذبے ہم آج بیدار نہیں کرینگے ہماری آنے والی نسلوں کو ہم آج سے تربیت نہیں دینگے تو پھر کبھی نہیں دے سکے گے .تو ضرورت اس بات کی ہے کے ہر ایک انسان اپنا آج ، اپنے آج کی سوچ ، اپنے اخلاق کو آج ہی بدلے تب ہی ہم کچھ کر دکھانے کا حوصلہ جیت پاے گے.