استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں

CaLmInG MeLoDy

Table of Contents

استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں
(۲)

مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
”اب دیکھیے یہ(استخارہ) کس قدر آسان کام ہے، مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادیے ہیں :
۱-پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر سو جاؤ ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
۲- دوسرا پیوند یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر ۔
۳-تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو ۔
۴-چوتھا پیوند یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو ، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا ۔
۵- پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں ۔
۶-چھٹا پیوند یہ لگایا کہ اس خواب میں کوئی بزرگ آئے گا ،بزرگ کا انتظار کیجیے کہ وہ خواب میں آکر سب کچھ بتادے گا ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آجائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
یاد رکھیے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ، بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں ، اللہ تعالی ان لکھنے والے مصنفین پر رحم فرمائیں“۔ (خطبات الرشید)
باوضو ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیندکے آداب میں سے تو ضرور ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے ان مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ لازمی سمجھ کر کیا جائے ۔

۱-استخارہ صرف اہم کام کے لیے نہیں !

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف اسی کام میں ہے جو کام بہت اہم یا بڑا ہے اور جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا جس کام میں انسان کو تردد یا شک ہے صرف ایسے ہی کاموں میں استخارہ کرنا چاہیے ، چنانچہ آج کل عوام الناس کو اپنی زندگی کے صرف چند مواقع پر ہی استخارہ کے مسنون عمل کی توفیق نصیب ہوتی ہے، مثلا نکاح کے لیے یا کاروبار کے لیے استخارہ کرلیا اور بس!گویا ہم ان چندگنے چنے مواقع پر تو اللہ سے خیر اور بھلائی کے طلب گار ہیں اور باقی تمام زندگی کے روز وشب میں ہم اللہ سے خیر مانگنے سے بے نیاز اور مستغنی ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ استخارہ صرف اہم اور بڑے کاموں ہی میں نہیں ہے ،بلکہ اپنے ہر کام میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنی چاہیے۔ اسی طرح استخارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کام میں تردداور تذبذب ہو تب ہی استخارہ کیا جائے ، بلکہ تردد نہ بھی ہو اور اس کام میں ایک ہی صورت اورایک ہی راستہ ہو تب بھی استخارہ کرنا چاہیے ،حدیث نبوی کے الفاظ ہیں :

”کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا․“ (بخاری)

یعنی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو ہر کام میں استخارے یعنی اللہ سے خیر طلب کرنے کی تعلیم دیتے تھے ۔

۲-استخارہ کے لیے کوئی وقت مقررنہیں

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے ، ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے ، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے، بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو۔

۳-استخارہ کے بعدخواب آنا ضروری نہیں

استخارہ کے بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ”استخارہ “ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے ، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو، خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعدآسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا یاکوئی کشف والہام ہوگا یا خواب آئے گا اور خواب کے ذریعے ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو ، یاد رکھیے ! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے ، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں آتا۔

۴-کسی دوسرے سے ”استخارہ نکلوانا“

استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں، اس کی اصلاح بھی ضروری ہے، وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے کرواتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ”استخارہ نکال دیجیے“گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ،ویسے ہی استخارہ بھی نکال دیجیے، دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداداور خاتمے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یایہ الہام ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا، اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کیے جارہے ہیں، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اللہ تعالی سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے ،نہ کہ خبر کا معلوم کرنا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ،جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضور سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی صحابی نے حضور سے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لیے استخارہ کردیجیے ، سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے ۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ،ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟ اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ،خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کرانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،خود د عا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس لیے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہیے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے۔سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے ۔

۵-ہم گناہ گار ہیں! استخارہ کیسے کریں ؟

انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تواللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا،جس ذات کا یہ فرمان ہوکہ” ادعونی استجب لکم“ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا ۔ تویہ اس عظیم وکبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالاجارہا ہے، راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا، جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے ،کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ اکی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے، بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو ۔لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے :
۱-پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے ، مسلمان ہو کر کیوں گناہ گار ہیں؟گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجیے ، بس گناہوں سے پاک ہوگئے ، گناہ گار نہ رہے ، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ، توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا ، اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
۲-دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی ،آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے، خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو ،خود کرے ، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں ، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے ،عوام کا کام نہیں ، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے ، ان کے پاس جو بھی چلا جائے، یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم ”نکال دیں گے “اور استخارہ کرنے کو ”استخارہ نکالنا“کہتے ہیں ،یاد رکھیں !یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح ضروری ہے۔