انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔
اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تواس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لئے لائق اعتماد ہوتو ہو لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟
مریض دلوں کے لئے انکار حدیث کی خوراک لذیذ ہوتو ہو ،لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ امتی کے لئے یہ موضوع خوشگوار نہیں بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ، مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایہ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم، کانپتا ہوں، کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیاگیا کہ ”او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندان ناخلف نے خود رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں۔
ایک رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات اب تک محفوظ تھی، تمام امت کا مرجع تھی، ہر امتی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کرتا تھا۔ امت میں کوئی اختلاف رونما ہو، اس کے فیصلہ کے لئے آپ کی ذات آخری عدالت تھی اور آپ کا ہر فیصلہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن افسوس! آج کس کے پاس یہ شکایت لے جائیں کہ فتنہ کے سیلاب کی موجیں علماء، صلحاء، صوفیاء، متکلمین، محدثین، مجتہدین، تابعین اور صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) ان سب کو روندتی ہوئی دین وشریعت کی آخری فیصل ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم سے ٹکرارہی ہیں اور چاہا جاتا ہے کہ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے آخری عدالت کو بھی مجروح کردیا جائے فالی اللہ المشتکی۔
اف! مبتلائے فتنہ امت میں یہ بحث موضوع سخن ہے کہ کیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث حجت ہے یا نہیں، دینی حیثیت سے قابل قبول ہے یا نہیں؟ کیا یہ صاف اور موٹی بات بھی کسی کی عقل میں نہیں آسکتی کہ کسی ذات کو نبی اور رسول ماننا یا نہ ماننا تو ایک الگ بحث ہے۔ لیکن جس ذات کو رسول مان لیا جائے، ماننے والے کے ذمہ اس کی ہر بات کا مان لینا بھی ضروری ہے، جس کام کا وہ حکم کرے اس کی تعمیل بھی ماننے والے کے لیے لازم ہے اور جس فعل سے وہ منع کرے اس سے رک جانا ضروری ہے۔
رسول کو رسول مان کر اس کے احکام میں تفتیش کرنا کہ یہ ”حکم آپ اپنی طرف سے دے رہے ہیں یا خدا کی طرف سے؟ اور اگر آپ اپنی طرف سے کوئی ارشاد فرماتے ہیں تو اس کی تعمیل سے معاف رکھا جائے“ نری حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ کتنی صاف اور سیدھی بات تھی لیکن نہیں معلوم لوگ عقل کو کہاں استعمال کیا کرتے ہیں کہ ایسے بدیہی امور میں بھی شک اور تردد کا مرض ان کو ایمان ویقین سے محرومکئے رکھتا ہے۔

[button color=”white” size=”medium” link=”http://calmingmelody.com/35-soorah-e-fatir-aayat-45/” target=”blank” ]35-Soorah-e-Fatir-Aayat-45[/button]

[button color=”white” size=”medium” link=”http://calmingmelody.com/33-al-ahzab-aayat-73/” target=”blank” ]33-Al-Ahzab-Aayat-73[/button]

[button color=”white” size=”medium” link=”http://calmingmelody.com/32-soorah-al-sajda-30/” target=”blank” ]32-Soorah-al-Sajda-30[/button]