Image result for میاں بیوی تصویر"

Table of Contents

شوہر کو مجازی خدا کہا جاتا ہے۔یہ بات کہتے تو سب ہیں مگر مجازی خدا کا مطلب سمجھنے اور اس مطلب کو سمجھ کر شوہر کو اس حساب سے درجہ دینے سے قاصر ہیں۔در حقیقت ہم سب کو ایک شوہر کے لیئے مجازی خدا کا لفظ استعمال کرنے سے قطعی پرہیز کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ الفاظ ذمانہ جہالیت میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی کو خدا ہونے کا درجہ حاصل نہیں۔ مرد و عورت دونوں کا ایک ہی خدا ہے۔ وہ ہی ہم سب کا پالنے والا اور جان و مال کا مالک ہے۔ یہ بات اور ہے کہ میاں بیوی کے مابین کچھ فرائض اور حقوق ہیں جو دونوں پر ادا کرنا ضروری ہے۔

اسلام نے نکاح کو خاندان کی بنیاد بنایا ہے اور زوجین پر ایک دوسرے کے فرائض مقرر کیے ہیں۔ چنانچہ بیوی پر شوہر کے حقوق ہیں اور شوہر پر بیوی کے حقوق ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ.

اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے۔

البقره، 2: 228

سورہ النساء میں اس فضیلت کا سبب یوں بیان کیا ہے کہ:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ.

مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

النساء، 4: 34

مرد ایک ذمانے سےعورت کے لیئے گھر سے باہر نکل کر کماتا رہا ہے اور بیوی بچوں کی کفالت کرتا رہا ہے۔ کیونکہ یہ فریضہ اسکو اسلام نے سونپا ہے۔ مگر آج کی عورت بھی اس فریضے کو انجام دے رہی ہے۔ فرق صرف یہ رہ گیا ہے۔ کہ مرد کماتا تھا تو سارے گھر کی کفالت کر کے بھی بیوی بچوں میں انصاف قائم رکھتا تھا۔ ساتھ اپنے والدین کے حقوق بھی ادا کیا کرتا تھا۔ لیکن آج کی عورت کما کر شوہر کے ساتھ محبت پیار بانٹنے کی بجائے اپنا احسان اور خود مختار ہونے کو جتاتی ہے۔ شوہر کی طرف سے لفظ بھر کی کوتاہی کو اتنا بڑھا دیتی ہے کہ دونوں میں علیحدگی ہونے تک کا موقع آ جاتا ہے۔ مرد کے شانہ بشانہ رہنا اور مل جل کر گھر کی کفالت کرنا بری بات نہیں۔ مگر شانہ بشانہ کے نام پر خود کو مرد پہ فوقیت دینا۔ یا شوہر کے حکم اور احساس کو رد کرتے ہوئے اپنی من مانی ذندگی کی خواہش کرنا نا دانی ہے۔ یاد رہے کہ عورت خلاء لے سکتی ہے۔ مگر طلاق کا اختیار اللہ نے مرد کو دیا ہے۔

شوہر بہر حال شوہر ہے۔ اسکا درجہ ہے۔ بیوی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ بدذبانی

کرے اور شوہر کی عزت کو اچھالے۔

اسلام کی نظر میں مرد اور عورت دونوں انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں‘ عورت کسی بھی طرح کمتر یا حقیر نہیں۔ اسلام نے خاندان کو ایک ادارے کے طور پر پیش کیا ہے اور شوہر و بیوی اس کے ارکان ہیں۔ جس طرح کسی ادارے میں فرد کو منصب اس کی اہلیت کی بنا پر دیا جاتا ہے اسی طرح خاندان میں شوہر اور بیوی کے فرائض ان کی جسمانی ساخت اور فطرت کی بنیاد پر طے کیے گئے ہیں۔ شوہر کو گھرکا رکھوالا یا منتظم تسلیم کیا گیا ہے اس اعتبار سے وہ عورت کا نگران و محافظ اور گھر کا سربراہ ہے۔

شوہر کو اگرچہ اس کی ذمہ داریوں کی وجہ سے گھر میں فوقیت حاصل ہے مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے خدائی کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی جہالت اور ہندوانہ رسومات کا اثر ہے۔ شوہر کو مجازی خدا کہنا قبیح قول ہے۔ خدا میں کوئی مجاز نہیں ہوتا، خدا ایک ہی ہے اور وہ حقیقی ہے۔ وہی شوہر کا خدا ہے اور وہی بیوی کا خدا ہے۔ اس لیے ایسے جملے بولنے سے احتراز ضروری ہے۔