wajdaan-e-ishq

Table of Contents

لے ڈوبا انسان کو عبادتوں کا غرور

کھو بیٹھا وہ اس کی لذتوں کا سرور

معرفت تین قسم کی ہوتی ہے اول معرفت توحید کی جو عام مومنین کو حاصل ہے.دوسری معرفت صحبت و بیان کی جو کہ حکماء اور علماء کے لئے مخصوص ہے تیسری معرفت صفات وحدانیت کی جو کہ صرف اولیاء اللہ کو حاصل ہے جو کہ دیدہء باطن سے اللہ تعالٰی کا مشاہدہ کرتے ہیں


طالب جب طلب کرتا ہے تو اللہ پاک اسے اس کی طلب کے عوض اپنی محبت عطا کر دیتا ہے۔ پھر جب وہ اللہ پاک سے محبت کرنے لگ پڑتا ہے تو اس محبت کے عوض اسے اپنا عشق عطا کر دیتا ہے۔ جب وہ عشق میں بے خود ہوتا ہے، جتنا جتنا اس میں وہ مست و بے خود ہوتا چلا جاتا ہے، اتنے اتنے اسے اللہ کے قرب کے درجات حاصل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان درجات میں سوجھ بوجھ، اعلیٰ قسم کی سمجھ،فہم وفراست وبصیرت اور کسی شے کو کماحقہ پانا سب کچھ عطا ہو جاتا ہے۔

انسان ایک نورانی مسافر ھے جو لامکانی بلندیوں سے اس خاکى عالم میں اترا اور قدم قدم پر اسی منزل کو واپس جارھا ھے-کس قدر
نادان ھے وہ مسافر جو دنیا کی عارضی بہاروں میں کھو جاۓ اور اپنی حقیقی اور دائمی منزل کو بھول جاۓ

جو فقیر کو بے برکت جانتا ہے خود بے برکت رہتا ہے ۔ جو فقیر کو بے حکمت سمجھتا ہے خود بے حکمت ہوتا ہے ‘ جو شخص تصور اسم اللہ ذات والے عارف فقیر کو جاہل جانتا ہے خواہ وہ ظاہری علم پڑھے بھی تو بھی وہ جاہل ہے۔سلطان العارفین حضر ت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ

صاحبِ نظر

صاحبِ نظر وہ ہے جو حسن و جمال کا اعلیٰ ترین نظریہ اور تصوّر رکھتا ہو، کائنات کی ہر شئے کے جمال کا عاشق ہو، زندگی کے تمام رنگوں کا عاشق ہو، وہ نابینا ہے جو عاشق میں شمار کیا جائے لیکن سیاہ فام شخص کے حسن کو نہ پہچان سکے۔ سیاہی کے حسن کے جلوے کو بھی جس نے پہچان لیا دراصل وہی صاحبِ فکر و نظر ہے، جلال و جمال کارسیا ہے، خالق کی تخلیقات کے حسن کا حصّہ اور جوہر ہے

مُردہ دل آدمی علمِ تصوف سے کتراتا ہے کیونکہ تصوف سے
نفس شرمندہ، قلب زندہ اور رُرح بینندہ (صاحبِ مشاہدہ)
ہوتی ہے کہ علمِ تصوف بندے کو خدا کی طرف کھینچتا ہے
اور لذتِ ہوائے نفس سے بیزار کرتا ہے

طالوت
ــــــــــــــــــــ( 1079ق م ۔ 1007ق م )
طالوت بن کش تاریخ میں قوم اسرائیل یعنی یہودیوں کے پہلے بادشاہ تسلیم کیے گئے ہیں جسے نبی سموئیل علیہ السلام نے قوم کے اصرار پر 1020ق م میں چنا تھا۔ کہیں اُن کازمانہ 1079ق م ۔ 1007ق م ہے تو کہیں ذرا سے فرق کے ساتھ کچھ اور ۔کچھ کے مطابق زمانہ حکومت 1028 قبل مسیح تا 1012 قبل تھا۔ یہ طالوت وہی ہیں جن کا ذکر توریت میں ساؤل (Saul) کے نام سے آیا ہے۔ توریت میں ان کی نصب حکومت کا ذکر حسب دستور طوالت کے ساتھ موجود ہے:۔ ”اور خداوند نے ساؤل کے آنے سے ایک دن پیشتر سموئیل کے کان میں کہہ دیا تھا کہ کل اسی وقت میں ایک شخص کو نبیمین کی سرزمین سے تجھ پاس بھیجوں گا۔ سو تو اس پر تیل ملیو کہ وہ میری قوم اسرائیل کا حکم ہو تاکہ میرے لوگوں کو فلسطیوں کے ہاتھ سے چھڑائے۔۔۔۔ سو جب سموئیل ساؤل سے دوچار ہوا تو وہیں خداوند نے کہا کہ دیکھ یہی شخص ہے جس کی بابت میں نے تجھے کہا تھا یہی میرے لوگوں پر ریاست کرے گا“۔ (سموئیل-1، باب 9 آیت 15 اور 16) [1]
قرآن میں ذکر

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُواْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اﷲ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہےo
— القرآن سورۃ البقرہ:247

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا: اس کی سلطنت (کے مِن جانِبِ اﷲ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسٰی اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہوگا، اگر تم ایمان والے ہو تو بیشک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہےo
— القرآن سورۃ البقرہ:248

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُواْ مِنْهُ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُو اللّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَO
پھرجب طالوت اپنے لشکروں کو لے کر شہر سے نکلا، تو اس نے کہا: بیشک اﷲ تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والا ہے، پس جس نے اس میں سے پانی پیا سو وہ میرے (ساتھیوں میں) سے نہیں ہوگا، اور جو اس کو نہیں پئے گا پس وہی میری (جماعت) سے ہوگا مگر جو شخص ایک چُلّو (کی حد تک) اپنے ہاتھ سے پی لے (اس پر کوئی حرج نہیں)، سو ان میں سے چند لوگوں کے سوا باقی سب نے اس سے پانی پی لیا، پس جب طالوت اور ان کے ایمان والے ساتھی نہر کے پار چلے گئے، تو کہنے لگے: آج ہم میں جالوت اور اس کی فوجوں سے مقابلے کی طاقت نہیں، جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ (شہید ہو کر یا مرنے کے بعد) اﷲ سے ملاقات کا شرف پانے والے ہیں، کہنے لگے: کئی مرتبہ اﷲ کے حکم سے تھوڑی سی جماعت (خاصی) بڑی جماعت پر غالب آجاتی ہے، اور اﷲ صبر کرنے والوں کو اپنی معیّت سے نوازتا ہےo
— القرآن سورۃ البقرہ:249

کہتے ہیں کہ ایک دن ایک سید زادہ
حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی
یا حضرت میں ایک غریب سید زادہ ہوں
اور سر پر جوان بیٹیوں کا بوجھ ہے۔۔
سادات گھرانے کی نسبت ہونے کی وجہ سے
زکوٰۃ بھی نہیں لے سکتا۔
آپ میرے دینی بھائی ہیں اور سید بھی ہیں آپ میری مدد کریں کچھ۔
آپ نے اس کو عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا
اور خادم سے بلا کر کہا کہ آج کوئی نذر و نیاز آئی خانقاہ میں؟
تو خادم نے عرض کی
سیدی ابھی تک تو کوئی نہیں آئی
لیکن جیسے ہی آئی میں آپ کو اطلاع کر دوں گا
آپ نے سید زادے کو تسلی دی اور کہا
اللہ پہ بھروسہ کرے
وہ دست غیب سے کوئی نہ کوئی انتظام فرما دے گا
مگر تین دن گزر گئے کوئی نیاز نہ آئی
سید زادہ بھی مایوس ہوگیا
کہ ایویں باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں
یہاں تو کوئی مدد ہی نہیں ہو سکی میری
ایک دن اس نے اجازت طلب کی واپسی کی
حضرت محبوب الہیٰ کو بہت دکھ ہوا
کہ مہمان خالی ہاتھ گھر سے جا رہا ہے
آپ نے اس کو چند پل کے لیئے روکا
اور اندر سے اپنے نعلین لا کر دے دیئے
اور کہا بھائی اس فقیر کے پاس تمھیں دینے کے لیئے
اپنے ان جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں
وہ سید زادہ جوتے لیکر چل پڑا
اور سوچنے لگا کہ ان پرانے بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا
حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ
دوسری طرف کی سنیئے

سلطان محمد تغلق کسی جنگی مہم سے واپس آرہا تھا
اور حضرت امیر خسرو
جو حضرت نظام الدین اولیا ء کے خلیفہ بھی تھے
سلطان کے ساتھ تھے
اور چونکہ آپ ایک قابل قدر شاعر تھے
اس لیئے دربار سلطانی میں اہمیت کے حامل تھے
آپ نے سلطان کی شان میں قصیدہ کہا
تو سلطان نے خوش ہو کر آپ کو سات لاکھ چیتل
(سکہ رائج الوقت )سے نوازا
اپنے واپسئ کے سفر پر
جب ابھی لشکر سلطانی دہلی سے باہر ہی تھا
اور رات کو پڑاؤ کیا گیا
تو اچانک امیر خسرو چلا اٹھے
مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آتی ہے
مصاحب بولے امیر حضرت محبوب الہیٰ تو کیلوکھڑی میں ہیں
جو دہلی سے کافی دور ہے تو آپ کو انکی خوشبو کیسے آ گئی
مگر امیر خسرو بے قرار ہوکر باہر نکل پڑے
اور خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے
جہاں ایک کمرے میں ایک شخص
اپنے سر کے نیچے کچھ رکھ کر سویا ہوا تھا
اور خوشبو وہاں سے آ رہی تھی
آپ نے اس کو جگایا اور پوچھا
تو حضرت نظام الدین کی خانقاہ سے آ رہے ہو کیا؟
تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا ہاں
آپ نے اشتیاق سے پوچھا کیسے ہیں میرے مرشد؟
وہ شخص بولا وہ تو ٹھیک ہیں
اور میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا
مگر اور کچھ تو دیا نہیں
ہاں اپنے پرانے بوسیدہ جوتے ضرور دیئے ہیں
یہ سنتے ہیں امیر خسرو کی حالت غیر ہو گئی
اور کہنے لگے کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین ؟

تو اس نے ایک کپڑا کھول کر دکھا دیئے

آپ نے ان کو پکڑا چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا
اور کہنے لگے کیا تو ان کو بیچے گا
اس نے کہا امیر کیوں مذاق اڑاتے ہو
امیر خسرو بولے
مذاق نہیں میرے پاس اس وقت سات لاکھ چیتل ہیں
وہ لے لو مگر میرے مرشد کے نعلین مجھے دے دو
اگر چاہو تو دہلی چلو اتنی ہی رقم اور دے دوں گا تمھیں
سات لاکھ چیتل کا سن کر وہ چکرا گیا
اور بولا نہیں بس میرا تو چند ہزار سے گزارا ہو جائے گا
مگر امیر خسرو نے زبردستی اس کو سات لاکھ چیتل دیئے
اور ساتھ میں سپاہی اور تحریر دے دی تا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے

اور پھر امیر خسرو اس حالت میں خانقاہ مرشد میں داخل ہوئے
کہ جوتے اپنی دستار میں لپیٹ رکھے تھے
اور سر پر رکھے بڑھے چلے آ رہے تھے اور زارو قطار رو رہے تھے
حضرت نظام الدین اولیاء نے مسکراتے ہوئے پوچھا
خسرو ہمارے لیئے کیا لائے ہو؟
امیر نے جواب دیا سیدی آپ کے نعلین لایا ہوں
کتنے میں خریدے؟
حضرت نظام الدین اولیاء نے استفسار کیا؟
سات لاکھ چیتل امیر نے جوابا” عرض کی
بہت ارزاں لائے ہو۔
محبوب الہیٰ مسکراتے ہوئے بولے

جی سیدی سات لاکھ چیتل تو بہت کم ہیں
اگر وہ سید زادہ میری جان بھی مانگتا
تو جان دے کر نعلینِ مرشد حاصل کر لیتا

یہ تھی ان کی اپنے مرشد سے محبت
اور حضرت نظام الدین اولیاء کا مقام معرفت
جس کی وجہ سے ان کو محبوبِ الہیٰ کہا جاتا ہے

جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاک حضور
تو پھر ہم کہیں گے ہاں تاجدار ہم بھی ہیں

جب حضرت نظام الدین اولیاء کے نعلین کی اتنی قیمت اور وقعت ہے۔
تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلِ پاک
تو شہنشاہوں کے تاجوں سے بھی برتر ہیں

—