امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ عنہ۔

imam abu hanfiya

آپ شرع محمدی کے چراغ اور امت محمدیہ ﷺ کے امام و پیشوا ہیں۔ آپ کی ریاضت و مجاہدہ کی کوئی حد نہیں ہے ۔ بہت سے مشائخ صابر کی
ریاضت کا شرف آپ کو حاصل ہے ۔آپ فضیل ۔ ابراہیم بن ادھم ؒ بشر حافی اور داؤ د طائی ؒ کے استاد ہیں۔ جب آپ نے روضہ نبوی ﷺ پر حاضر ہو کر السلام علیک یا سید المرسلین کہا۔ تو جواب میں وعلیکم السلام یا امام المسلمین کی ندا سنائی دی۔
آ پ نے ابتدائی عمر ہی میں گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔ ایک رات خواب میں دیکھا۔ کہ آپ آنحضرت ﷺ کی استخوان مبارک میں سے جمع کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کو پسند کرتے تھے اور بعض کو ناپسند ۔چنانچہ خواب کی ہیبت سے آپ بیدار ہوئے ۔ اور ابن سیرین کے ایک رفیق سے خواب بیان کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہ خواب نہایت مبارک ہے۔تم آنحضرت ﷺ کے علم اور حفظ سنت میں اس حد تک پہنچ جاؤ گے کہ صحیح کو غیر صحیح سے علیحدہ کرو گے ۔ پھر ایک بار آپ نے رسولﷺ کو خواب میں دیکھا جو فرما رہے تھے کہ ابو حنیفہ تم کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کہ میری سنت کو ظاہر کر و اور عزلت کا قصد ترک کر دو۔
آپ کی احتیاط کا یہ عالم تھا۔ کہ ایک دفعہ خلیفہ نے ایک مجلس کی ۔جس میں آپ کے استاد شعبی اور دوسرے علمائے وقت کو جمع کیا۔اور داروغہ کو حکم دیا کہ ہر ایک خادم کے نام کچھ جائداد وقف یا ملک یا اقرار کے طور پر لکھدواور علمائے کرام کی گواہیاں کرا لو۔چنانچہ کاغذ لکھا گیا اور تما م علمائے کرام اور آپ کے استاد نے اس کاغذ پر دستخط کردیئے ۔جب کاغذ آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ خلیفہ کہاں ہیں ۔جواب ملا کہ اپنے محل میں۔ آپ نے فرمایا کہ امیر المومینین یہاں آئیں یا میں ان کے پا س جاؤں۔تب شہادت ٹھیک ہو۔یہ لفظ سن کر داروغہ نے کچھ درشتی سے کام لیا اور کہا کہ سب علمائے کرام نے گواہی لکھ دی ۔آ پ فضول باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک فعل اس کے اپنے لئے ہے۔چناچہ آپ نے شہادت لکھنے سے انکار کر دیا۔ جب خلیفہ کو خبر ہوئی تو اس نے آپ کے استاد شعبی ؒ کو بلا کر پوچھا کہ کیا گواہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے کہا ہاں ۔ پھر خلیفہ سے پوچھا کہ اگر یہ بات ہے تو تم نے بغیر دیکھے گواہی کیوں لکھدی شعبی ؒ نے کہا کہ مجھ کو معلوم تھا کہ آپ کے حکم سے ہے ۔خلیفہ نے کہا کہ یہ بات حق سے دور ہے ۔ اور تم منصب قضا کے قابل نہیں ہو۔ اس کے بعد خلیفہ نے اکابر علماء کے مشورہ کے بعد ابوحنیفہ ، سفیان بن خرام اور شریح کو منتخب کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو قاضی بنانا چاہیے چنانچہ ان چاروں کو طلب کر کے خلیفہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔اور کہا کہ تم لوگ اپنے میں سے کسی کو قاضی مقر ر کرلیں ۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں تو قضا کو قبول نہیں کرونگا۔آپ نے اپنے دوسرے ساتھیوں سے فرمایا کہ نجات کی ایک سبیل میں تم کو بتاتا ہوں سب کے اتفاق پر آپ نے فرمایا کہ سفیان کو بھا گ جانا چاہیے ۔ مسفر بن خرام اپنے کو دیوانہ بنا لیں میں قضاء کو قبول نہ کرونگا اور تشریح کو قاضی بنا لیا جائے ۔چنانچہ اسی تجویز کے مطابق سفیان تو بھا گ گئے۔اور باقی تینوں دربار میں پہنچے خلیفہ نے آپ کو قاضی بنانا چاہا ۔مگر آپ نے فرمایا کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ اگر میں اس بات میں سچا ہوں۔ تو فی الحقیقت قاضی بننے کے قابل نہیں۔اگر جھوٹا ہوں تو جھوٹا شخص بھی قاضی نہیں بن سکتا ۔علاوہ ازیں میں قریشی نہیں ہوں بلکہ موالی ہوں اور عرب کے لوگ میری قضا کو قبول بھی نہیں کرینگے ۔ اس کے بعد مسفر؟نے اگے بڑھ کر خلیفہ کا ہاتھ پکڑا اور دیوانہ پن کی باتیں شروع کیں ۔ چنانچہ ان کو نکال دیا گیا۔ اس کے بعد شریح کو قاضی بنا دیا گیا۔
نقل ہے کہ ایک دفعہ لڑکے گیند کھیل رہے تھے ۔ تو اتفاقا گیند اچھل کر مجلس میں آپڑا ۔کسی کو جاکر لانے کی جرات نہ ہوتی ۔ آخر ایک لڑکا گستاخانہ اندر آیا ۔ اور گیند اٹھا کر لے گیا۔ آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ شاید یہ لڑکا حلال زادہ نہیں ہے چنانچہ دریافت پر ایسا ہی معلوم ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوگیا۔ فرمایا اگر حلال زادہ ہو تا تو اس میں شر م و وحیا ہوتی۔
فرماتے ہیں کہ جب کبھی کسی مسئلہ میں کچھ تردد ہوتا۔ تو میں چالیس بار قرآن کریم کا ختم کرتا تو وہ مسئلہ منکشف ہو جاتا۔
داؤد طائیؒ فرماتے ہیں۔ کہ میں بیس ۲۰ سال تک آپ کی خدمت میں رہا ۔ خلوت و جلوت میںآپ کو دیکھا ۔مگر ننگے سر نہ دیکھا ۔ اور نہ آپ کو آرام کے لئے پاؤں پھیلائے ہوئے دیکھا۔ میں نے عرض کیا۔ اگر خلوت میں آپ آرام کیلئے پاؤں پھیلالیں تو کیا حرج ہے۔فرمایا کہ خلوت میں خدا کے ساتھ ادب سے رہنا زیادہ مناسب ہے۔
ایک دفعہ کہیں جارہے تھے۔راہ میں ایک لڑکے کو دیکھ کر فرمایا کہ سنبھل کر چل تاکہ کیچڑ میں نہ گر پڑے ۔اس نے کہا اگر میں گر پڑا تو معمولی بات ہے ۔ اکیلا ہی گروں گا ۔ لیکن اگر آپ کا پاؤں پھسل گیا ۔تو وہ تمام مسلمان جو آپ کے بعد آئیں گے پھسل جائیں گے ۔اور پھر ان کا اٹھ سکنا دشوار ہو گا۔ آپ کو اس لڑکے کے فہم پر تعجب آیا۔ فورا مجلس میں آکر اپنے معتقد ین اور اصحاب کو فرمایا ۔کہ خبر دار اگر کسی مسئلہ میں تم کو میری نسبت کوئی بات زیادہ واضح معلوم ہو ۔تو میری اطاعت نہ کرو ۔اور اگر میرے قول کو حدیث و قرآن سے مطابق نہ پاؤ ۔تو میرے قول کو زمین پر پٹخ دو ۔ یہ الفاظ آپ کے کمال انصاف کی علامت ہیں۔
ایک مالدار شخص امیر المومنین عثمانؓ سے اختلاف رکھتا تھا ۔ اور اکثر آپ کو یہودی کہہ دیتا جب یہ بات آپ کے کانوں تک پہنچی ۔تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا ۔کہ میں تمہاری لڑکی کا نکاح فلاں یہودی سے کرو دوونگا ۔اس مالدار نے کہا آپ نے کہا آپ امام المسلمین ہو کر ایسا گناہ کاکام کرینگے ۔ کہ ایک مسلمان کی لڑکی یہودی کے ساتھ بیاہ دینگے ۔ اور میں یہ کیونکہ گوارا کرو نگا ۔ کہ میری لڑکی یہودی کے ساتھ بیاہی جائے ۔آپ نے فرمایا کہ سبحان اللہ ۔ تم اپنی ایک لڑکی تو یہودی کو دینا گوارا نہ کرو۔اور جناب رسول خدا ﷺ کی دو لڑکیاں یہودی کے حوالے کر و ۔یہ سن کر وہ شخص فورا سمجھ گیا اور تائب ہوا۔
ایک دفعہ ایک شخص کو ننگا دیکھ کر آپ نے آنکھیں بند کرلیں ۔ لوگوں نے کہا یہ فاسق ہے۔ کسی نے کہا دہر یہ ہے یہ سن کر اس آدمی نے کہا کہ یا امام آپ کی بینائی کب سے سلب کرلی گئی ہے ۔ فرمایا جب سے تیری شرم و حیا کا پردہ اٹھ گیا۔

فرماتے ہیں کہ میں بخیل کو عادل نہیں سمجھ سکتا ۔ اور نہ اس کی شہادت کو تسلیم کرتا ہوں ۔کیونکہ بخل اس کو اس بات پر آمادہ کرے گا۔کہ وہ اپنے حق سے زیادہ ۔
ایک دفعہ ایک مسجد تعمیر ہو رہی تھی۔لوگوں نے تبرک کے طور پر آپ سے بھی چند ہ مانگا ۔ جو ناگوار معلوم ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ ہماری غرض صرف تبرک سے ہے۔ آ پ نے نفرت کے ساتھ ایک درم دیدیا۔ یہ حال دیکھ کر لوگوں نے کہا کہ آپ عادل اورکریم ہیں۔ سخی بھی ہیں۔ مسجد کے کام میں آپ کو چندہ دینا کیوں ناگوار گذار ۔ فرمایا مال کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ مجھ کو یقین ہے ۔ کہ حلال مال پانی اور مٹی میں ہر گز خرچ نہیں ہوتا۔ اور میرا مال حلال کا ہے۔جب انہوں نے مانگا ۔تو مجھے شبہ ہوا ۔ شاید میرا مال حلال کا نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں بہت رنجیدہ ہوا۔ غرض چنددنوں کے بعد وہی درم واپس آپ کے پاس لے آئے۔ اور فرمایا کہ کھوٹا ہے۔ یہ سنتے ہی آپ خوش ہو گئے ۔ ( مگر مترجم اس روایت سے خوش نہیں ہے)
ایک دن آپ بازار میں سے گذر رہے تھے۔کہ ناخن بھر مٹی آپ کے کپڑوں کو لگ گئی ۔چنانچہ آپ دریائے دجلہ پر جاکر اس کو دھونے لگے۔ لوگوں نے کہا کہ یا امام المسلمین آپ تو ایک مقدار معین نجاست کو معاف کرتے ہیں۔پھر اس قدر مٹی کو کیوں دھوتے ہیں فرمایا کہ ہاں وہ فتوی ہے ۔اور یہ تقوی ۔
شیخ بوعلی بن عثمان اطلابی بیان کرتے ہیں ۔کہ ایک دفعہ میں ملک شام میں حضرت بلالؓ موذن کی قبر پر سویا ہوا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں۔ کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں ۔اور جنا ب رسول کریم( روحی فداہ) ﷺ ایک بوڑھے شخص کو نہایت شفقت کے ساتھ گود میں لئے ہوئے آئے ۔ میں نے دوڑ کر قدموں میں سررکھا اور پوچھا کہ یہ کون شخص ہے ۔ فرمایا کہ تمہارے ملک اور مسلمانوں کے امام ابو حنیفہ ؒ ہیں۔
نوفل بن حیان ؒ کہتے ہیں کہ جب آپ انتقال فرماگئے ۔ تو میں نے خواب میں قیامت کو دیکھا ۔ تما م خلقت حساب دے رہی ہے۔ جناب رسول مقبول ﷺ حوض کوثر کے کنارے تشریف فرماہیں۔ اور دنوں طر ف مثائخ کھڑے ہیں وہاں ایک سفید چہر ہ خوبصورت بزرگ دیکھا ۔ جو آنحضرت ﷺ کے منہ پر منہ رکھتے ہیں۔ اور مام ابو حنیفہ آپ کے برابر کھڑے ہیں۔ میں نے اسلام کرکے حضرت امام ابو حنیفہ سے پانی طلب کیا۔ مگر آپ نے فرمایا ۔کہ جب تک آنحضرت ﷺ اجازت نہ دینگے ۔ پانی نہیں دے سکتا ۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے پانی دیدینے کا حکم دیا ۔ تب آپ نے ایک پیالہ پانی کا دیا ۔ جو ہم کئی شخصوں نے پیا ۔ مگر پھر بھی پیالہ بھر ا ہوا تھا۔میں نے پھر پو چھا کہ آنحضرت ﷺ کے دائیں طر ف کون بزرگ میں۔ فرمایا حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور بائیں طرف صدیق اکبرؓ اسی طرح سترہ شخصوں کی نسبت میں نے پوچھا
حضرت یحیٰ معاذ رازی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں جناب رسالت ماآب کی زیارت کرکے پوچھا آپ کو کہا ں تلاش کروں ۔ فرمایا کہ ابو حنیفہ کے علم کے نزدیک مجھ کو تلاش کروْ
اگرچہ آ پ کے مجاہدات و مناقب بیشمار ہیں ۔ جوکسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہم اس قدر حالات پر اکتفا کرتے ہیں۔
یہ تحریر میرے انتخاب کے طور پر ماہنامہ نوائے منزل میں چھپ چکی ہے۔ عبدالرزاق قادری